سبی : وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ عوامی دور حکومت میں بلوچستان کے ان ترقیاتی منصوبوں کو بھی عملی جامع پہنایا جا رہا ہے، جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا اور نا ہی دور آمریت میں ان منصوبوں کی جانب توجہ دی گئی ۔ تاہم وزیراعظم محمد نواز شریف نے برسراقتدار آتے ہیں بلوچستان کی ترقی کو اپنی توجہ کا محور بناتے ہوئے کئی ایک منصوبوں پر عملدرآمد کا آغاز کرایا جن میں سبی رکھنی روڈ کا منصوبہ بھی شامل ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے سبی رکھنی روڈ کے سبی کوہلو سیکشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔ جس کے مہمان خصوصی وزیراعظم محمد نواز شریف تھے، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وفاقی و صوبائی وزراء، چین کے سفیر ، قومی سلامتی کے مشیر ، چیف سیکریٹری بلوچستان اور دیگر وفاقی و صوبائی حکام ، مری اور علاقے کے دیگر قبائلی عمائدین کی بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو فیصلہ کیا کہ اس طویل عرصہ سے تعطل کا شکار اس منصوبے کو مکمل کیا جائیگا، جو معاشی و اقتصادی کے ساتھ ساتھ سیاسی و قبائلی حوالے سے انتہائی اہم سڑک ہے اور پنجاب تک پہنچنے کا مختصر راستہ ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج یہاں مری اور علاقے کے دیگر قبائل کے لوگوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کا ہر قبیلہ ترقی چاہتا ہے، انہوں نے قبائلی عمائدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سڑک آپ کی سہولت کے لیے بنائی گئی ہے اگر ہمیں آپ کی تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو جس طرح ماضی میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا گیا تھا ہم بھی ایسا ہی کرتے، انہوں نے کہا کہ کوہلو میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نے سبی بھی نہیں دیکھا لیکن اب مختصر ترین سفر کر کے وہ اپنے مریضوں اور پیداواری اشیاء کو نا صرف سبی بلکہ پنجاب تک باآسانی لے جا سکتے ہیں، انہوں نے قبائلی عمائدین سے کہا کہ اب اس سڑک کی ذمہ داری آپ لوگوں کی ہے اور آپ ہی کو اس کی حفاظت کرنا ہے، وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب کا ایک حصہ بلوچی زبان میں بھی کیا جس کا مقصد مقامی لوگوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنا تھا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ محمد نواز شریف پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے اس پسماندہ علاقہ میں آکر لوگوں سے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے، انہوں نے کہا کہ سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان رہنے والے لوگ سخت جان بھی ہیں اور عزم و حوصلے کا پہاڑ بھی۔ ہمارے لوگ ملک و قوم کی خوشحالی اور وزیراعظم کے وژن کے مطابق امن و ترقی کے عمل کو ساتھ ساتھ آگے بڑھانے کے لیے پر عزم ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے لوگوں نے دشمنوں کی تمام سازشوں کا نہایت جرات اور حوصلے سے مقابلہ کیا ہے اور عوام کے بھر پور تعاون کے باعث ہی ہماری حکومت کے لیے شرپسندوں، امن مخالفوں اور دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانا ممکن ہو سکا ہے۔ بلوچستان کے دلیر، باشعور اور محب وطن عوام کو آئندہ بھی دشمن کی کوئی سازش ورغلانے میں کامیاب نہیں ہوگی اور بلوچستان کے عوام ہمیشہ پاکستان کی بقاء، سلامتی اور ترقی کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی فراہمی، خاص طور سے سڑکوں کا جال بچھانے کے لیے وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں کا بلوچستان کا ہر شخص قائل ہے۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ منفی اور شرپسند عناصر کو معاشی اور تجارتی سرگرمیوں سے ہی شکست دی جا سکتی ہے، انتشار اور محاذ آرائی کی سیاست کا دور ختم ہو چکا ، اب قوم بیدار ہو چکی ہے اور کسی نعرہ بازی کا شکار نہیں ہوگی۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے وزیراعظم محمد نواز شریف سے سی پیک کے لیے ان کی سربراہی میں ایک فورم تشکیل دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ فورم کے قیام اور باقاعدگی کے اجلاس سے سی پیک کے سلسلے میں پائی جانے والی سیاسی مخالفین کی رائے اور بداعتمادی کی فضاء کو دور کرنے میں مدد ملے گی، وہ جمعرات کے روز یہاں سی پیک کے حوالے سے مختلف منصوبوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے جس کے مہمان خصوصی وزیراعظم محمد نواز شریف تھے، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وفاقی و صوبائی وزراء، چین کے سفیر ، قومی سلامتی کے مشیر ، چیف سیکریٹری بلوچستان اور دیگر وفاقی و صوبائی حکام ، سرمایہ کاروں اور علاقے کے عمائدین نے بھی تقریب میں شرکت کی، گوادر بندرگاہ میں منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ سی پیک کا منصوبہ نا صرف گوادر اور بلوچستان بلکہ پاکستان کے تمام صوبوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کے عظیم دور کی نوید لے کر آیا ہے۔ ہم اس منصوبے کی راہ میں حائل تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور اپنے جوانوں کے خون کا نذرانہ دے کر اس پودے کی آبیاری کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ بڑے فخر سے یہ بات کرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام بہادر اور حوصلہ مند ہیں، جو دشمن کی دہشت گردی کی کاروائیوں سے ڈرنے والے نہیں اور دنیا کی کسی طاقت کو سی پیک کو ناکام بنانے نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ موہ اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بلوچستان اور اس عوام کی حالت بدلنے کے لیے وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی اور توجہ کی قومی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں۔بلوچستان میں ان کی خصوصی دلچسپی اور اس کے عوام کے ساتھ محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ گوادر کی ترقی اب ایک حقیقت بنتی نظر آرہی ہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ سی پیک کے سلسلے میں وزیراعظم محمد نواز شریف اور وفاقی حکومت نے جو بہت بڑے قدم اٹھائے ہیں ان سے وہ رکاوٹیں دور ہوئیں جو گوادر کی ترقی اس کی تیزی رفتاری کی تکمیل میں حائل تھیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے 2007 میں سنگاپور کی کمپنی کے ساتھ معاہدے میں طے کیا تھا کہ گوادر پورٹ کو ترقی دینے کے لیے ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کے سلسلے میں SRO جاری کئے جائیں گے۔ مگر اتنے سال گزرنے کے باوجود یہ چھوٹ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے گوادر فری ٹریڈ زون کی ترقی سست رفتاری کا شکار تھی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعظم نے اس مسئلے کو حل کیا اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے سلسلے میں متعلقہ SROs جاری کر دئیے گئے ہیں۔ عرصہ دراز سے زیر التواء ایس آر او (SRO) کے اجراء کی بنیاد پر گوادر میں تجارتی سرگرمیوں پر ٹیکس کی چھوٹ سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اب وہ جوق درجوق گوادر آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین کے سرمایہ کاروں کا طویل عرصے سے یہ مطالبہ تھا کہ گوادر میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے 300 میگا واٹ پاور پلانٹ کی منظوری دی جائے۔ وزیراعظم نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے کابینہ کے گذشتہ اجلاس کے دوران 300میگا واٹ پلانٹ کی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سی پیک اور گوادر کی سیکورٹی کے لیے وفاقی حکومت نے نیا سیکورٹی ڈویژن تشکیل دے دیا ہے جو فوج کے افسروں اور جوانوں پر مشتمل ہے، جبکہ گوادر کو سیف سٹی بنانے کے پروجیکٹ کی منظوری اور متعلقہ فنڈ بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے گوادر میں کام کرنے والے چینی انجینئر اور سرمایہ کار مکمل تحفظ محسوس کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ اس حوالے سے افواج پاکستان ، پولیس، لیویز، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان تاریخی فیصلوں کے نتیجے میں گوادر میں ریئل اسٹیٹ کی قیمتیں دو گنا سے زیادہ ہو چکی ہیں اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر اپنے جغرافیائی محل و وقوع اور گہرے پانی کی بندرگاہ کے باعث پاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھتا ہے، سی پیک کے پہلے فیز کے تحت گوادر میں اہم نوعیت کے کئی ایک منصوبوں پر کام جاری ہے۔گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ جس کا تخمینہ لاگت 250ملین امریکی ڈالر ہے اور یہ 4300ایکڑ پر محیط ہوگا، جو 2019تک مکمل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسٹ بے ایکسپریس وے ، جس کا تخمینہ لاگت 150ملین امریکی ڈالر ہے جو 19کلومیٹر طویل ہے اور اڑھائی سال میں مکمل ہوگا۔پاکستان چائنا فرینڈشپ ہسپتال، جس کا 50بستروں کا پہلا فیز مکمل ہوچکا ہے اور اگلے فیز میں 150 بستروں کا مزید اضافہ ہوگا، جس کا مجموعی تخمینہ لاگت 100ملین امریکی ڈالر ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان چائنا ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گوادر پورٹ ،گوادر واٹر سپلائی اسکیم ، گوادر میں 300میگا واٹ پاور پلانٹ کی تنصیب بھی انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے ہیں جو یقیناًگوادر کو ایک انٹرنیشنل شہر بنانے اور گوادر کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی بنیاد ثابت ہونگے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیر اعظم کے جرات مندانہ فیصلوں اور بروقت اقدامات کی بدولت گوادر کی اہمیت اور اس کی شان و شوکت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔گوادر پورٹ کو M-8 ا ورN-85 سے منسلک کرنے کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم ناصرف ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں بلکہ انہوں نے اس حوالے سے واضح احکامات بھی جاری کئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر فری ٹریڈ زون، گوادر بندرگاہ کا حصہ ہے۔ جو مجموعی طور پر 2286 ایکڑ رقبہ پر محیط ہے۔جس کا پہلا فیز 2017 میں مکمل ہوگا جس پر لاگت کا تخمینہ 200 امریکی ڈالر ہے، انہوں نے کہا کہ گوادر فری ٹریڈ زون مستقبل میں اشیاء کی نقل و حمل کا بڑا ذریعہ بن جائیگااور توقع ہے کہ گوادرپورٹ فری زون اپنی تکمیل کے بعد تقریباً 50 ہزار براہ راست ملازمتوں کے مواقع پیداکریگا، جبکہ اس سے کہیں بڑی تعداد میں بلاواسطہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت فری ٹریڈ زون میں ایک پیشہ ورانہ تربیتی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائیگاجس کی منظوری دی جا چکی ہے، اس پر 913 ملین روپے لاگت آئے گی۔چینی حکومت نے پوری رقم گرانٹ کی شکل میں فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے درمیان فری زون میں تجارتی سرگرمیوں کے آغاز کے لیے اب تک 28معاہدوں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہو چکے ہیں، فری زون کے باقاعدہ آغاز ، پانی اور بجلی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے بعد ان سرمایہ کاروں کو زمین الاٹ کر دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کے زیر انتظام خطیر لاگت سے بزنس کمپلیکس کی تعمیر گوادر کے جدید شہر کا ایک اہم حصہ ہے۔اس منصوبے کے آغاز سے گوادر میں تجارتی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر ایک بڑے تجارتی مرکز کے ساتھ ساتھ ایک جدید شہرکی شکل اختیار کر رہاہے۔ بنیادی ضروریات کی فراہمی یقیناًاس پورے عمل کا ایک اہم تقاضہ ہے۔گوادر میں پانی کی فراہمی دیرینہ لیکن سب سے اہم مسئلہ ہے، بارشوں کی کمی کے باعث یہ مسئلہ ہر سال شدت سے اٹھتا ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے سوڑ کور اور شادی کور ڈیم مکمل کیا ہے اور اب اس کی پائپ لائن گوادر تک بچھائی جا رہی ہے ، اگر بارشیں ہوں تو اس ڈیم کے ذریعہ پانی کا مسئلہ کسی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ سی پیک پر عملدرآمد کے نتیجے میں منطقی طور پر علاقے کی آبادی میں اضافہ ہوگا اور پانی کی ضروریات بھی بڑھ جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے گوادر میں صاف پانی کے لیے 50لاکھ گیلن کا ڈی سیلینیشن پلانٹ نصب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، اس وقت GDA کا 20لاکھ گیلن کا ایک پلانٹ کام کر رہا ہے۔گوادر کو بین الاقوامی شہر بنانے کے لیے پانی کی دستیابی کو اولین ترجیح حاصل رہے گی، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے وسائل انتہائی محدود ہیں، انہوں نے وزیراعظم سے درخواست ہے کہ 50لاکھ گیلن کے ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب کے اعلان پر عملدرآمد کرایا جائے جبکہ چینی کمپنیاں بھی اپنا کردار ادا کریں ، انہوں نے کہا کہ چینی فاؤنڈیشن برائے امن و ترقی نے فقیر کالونی گوادر کے لوگوں کے لیے ایک پرائمری سکول کا عطیہ دیا۔ صوبائی حکومت نے مذکورہ اسکول کی تعمیر کے لیے 8100مربع فٹ زمین مہیا کی۔ اسکول کی تعمیر نومبر2015 میں شروع ہوئی اور اگست 2016 میں مکمل ہوئی، رواں تعلیمی سال کی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں۔