|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2016

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے سلسلے میں گوادر فری ٹریڈ زون سمیت پانچ منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ گوادر کو بین الاقوامی شہر بنتادیکھ کر خوشی ہورہی ہے، گوادر پاکستان اور پاکستان گوادر ہے۔میاں محمد نوازشریف کاکہنا ہے کہ گوادر میں جدید انٹرنیشنل ایئرپورٹ بھی تعمیر کیجائے گی جہاں یورپ سمیت گلف کی پروازیں چلیں گی۔50 ہزار ملازمتوں کے مواقع بھی پیداکیے جائینگے جس میں مقامی افراد کو موقع دیاجائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف کاکہنا ہے کہ گوادر میں 150 ارب روپے کی لاگت سے سڑکوں کا جال بچھارہے ہیں‘ جدید ہسپتال کا قیام بھی عمل میں لایاجائے گا جو 300 بستروں پر مشتمل ہوگا۔اقتصادی راہداری منصوبوں میں فری ٹریڈ زون ،بزنس کمپلیکس آف گوادرپورٹ اتھارٹی، پاک چین پرائمری اسکول، دوڈیمز اورگوادر یونیورسٹی شامل ہیں‘ منصوبے میں 37 ارب ڈالر توانائی کے شعبے کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے ان منصوبوں پر دلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ میرا دیرینہ خواب ہے جو پایہ تکمیل تک پہنچنے جارہا ہے۔ گوادراس خطے میں تجارتی اور دفاعی حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے دیگر ممالک نے بھی گوادر پورٹ کو چلانے کی پیشکش کی اور چند ایک ممالک نے معاہدے بھی کیے مگر چین واحد ملک ہے جس نے بڑے پیمانے پر گوادر میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا اس سے قبل کسی بھی ملک نے اتنابڑا سرمایہ گوادر میں نہیں لگایا‘ چین کی دلچسپی دو پہلوؤں پر مشتمل ہے ایک تجارتی حوالے سے وہ اس خطے میں اپنی مارکیٹ کو وسط دینا چاہتا ہے دوسری طرف خطے میں اپنے اثر کو برقرار رکھنا چاہتا ہے‘ اس منصوبے کو گیم چینجر کانام دیاجارہا ہے جو ایک حقیقت بھی ہے مگر اس منصوبے کوناکام بنانے کی بازگشت بھی سننے کو ملی جس کا برملا اظہار ہماری عسکری اور سول قیادت بارہا کرتے رہے ہیں۔گوادر اگر میگا سٹی بن جاتا ہے اور اس سرمایہ کاری سے پاکستان اپنے معاشی اہداف حاصل کرلیتا ہے تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا مگر اس سے قبل یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ بلوچستان جو سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے تمام وسائل ہونے کے باوجود آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہے جو ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایانہیں جاسکتا اور اسی بنیادپر جو سیاسی معاملات اب تک چل رہے ہیں جو شورش کا باعث بنے ،اُن کو حل کرنے کی انتھک کوشش ہونی چاہیے تاکہ گوادرسمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع کے عوام اس منصوبے کو اپنی ترقی اور خوشحالی سمجھیں کیونکہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کا یہی گلہ ہے کہ ماضی میں بھی یہاں سرمایہ کاری کی گئی مگر اس کے فوائد ہمارے عوام کو نہیں ملے اس لیے اس بات پر باور کرنا انتہائی مشکل ہے کہ سی پیک سے ہمارے لوگوں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اقتصادی راہداری کے فوائد بلوچستان کے عوام تک برائے راست پہنچا ئے کیونکہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں،سڑکوں سمیت دیگر مسائل اب تک جوں کے توں ہیں جنہیں حل نہیں کیاجارہا۔دوسری جانب سی پیک روٹ پر بھی اپوزیشن جماعتیں مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا روٹ کے متعلق احسن اقبال نے بریفنگ بھی دی مگر آج بھی اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ ہمیں گمراہ کیاجارہا ہے سی پیک روٹ کا نقشہ وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں۔بہرحال یہ بھی ایک ایشو ہے جسے حل کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ اس اہم منصوبے پر کوئی ابہام نہ رہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق حکمران متعدد بار اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ دشمن ممالک کی آنکھوں میں یہ منصوبہ چُبھ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں کے حالات خراب کررہے ہیں مگر ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے لوگوں کے خدشات وتحفظات کو دور کریں تاکہ ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوجائیں پھر کوئی بھی طاقت اس منصوبے کو ناکام نہیں بناسکتی ۔