|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع کیچ میں اغواء کے بعد قتل کئے جانے والے تین سرکاری انجینئرز کی لاشیں تین ماہ گزرنے کے باوجود پہاڑوں سے نہیں اتاریں جاسکیں۔ موسم کی سختی اور ڈھائی ہزار فٹ بلندی کے باعث لاشیں اتارنا ورثاء کیلئے امتحان بن گیا۔ حکومت نے بھی سرکاری فرائض کی انجام دہی میں جانیں قربان کرنے والے اہلکاروں کے ورثاء کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ تین ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود لاشوں کی باقاعدہ تدفین اور جنازہ نہ ہونے کے باعث ورثا درد اور کرب سے گزررہے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، گورنر،وزیراعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام سے نوٹس لینے مطالبہ کیا ہے۔ محکمہ تعمیرات و مواصلات اور محکمہ آبپاشی کے تین انجینئر محمد ابراہیم، فدا محمد اور رحیم بخش کو دو ٹھیکیداروں محبوب رند اور چاکرزاعمرانی کے ہمراہ رواں سال پندرہ مئی کو اس قت اغواء کیا گیا تھا جب وہ کیچ کے علاقے دشت میں محکمہ اربن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ کرنے جارہے تھے۔ اغواء کی ذمہ داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی۔ اغواء کے بعد مغویوں کو سائیجی کے پہاڑ پر لے جایا گیا جہاں چند دنوں بعد شدید گرمی اور بھوک پیاس کی وجہ سے پانچوں مغویوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔ چوبیس مئی کو اہلخانہ کو اپنے پیاروں کی موت کی اطلاع ملی۔ مغویوں کے رشتہ دار دونوں ٹھیکیداروں کی لاشیں پہاڑ کے دامن سے اتارنے میں کامیاب ہوگئے تاہم باقی تینوں انجینئر کی لاشیں پہاڑ کی چوٹی پر موجود ہونے کے باعث اتاریں نہ جاسکیں۔ ورثاء شدید گرمی میں سخت جدوجہد کے بعد آٹھ گھنٹے میں دو سے ڈھائی ہزار فٹ بلند پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن پچاس سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت والے موسم میں بلندی پر پہنچنے والوں کی حالت خود غیر ہوگئی تھی اور وہ اس قابل نہیں تھے کہ پانی کی بوتل تک اٹھاسکے۔ شہید انجینئر محمد ابراہیم کے بیٹے جہیند بلوچ نے بتایا کہ ہمیں مجبورا اپنے والد اور ان کے باقی دو ساتھیوں کی لاشیں پتھروں سے چھپاکر عارضی طور پر تدفین کرنا پڑی۔ ہم نماز جنازہ تک ادا نہیں کرسکے کیونکہ 80 رشتہ داروں میں سے صرف دس لوگ ہی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور سخت گرمی میں پانی ختم ہونے پر سب کی حالت اس حد تک خراب ہوگئی تھی کہ وہ چوٹی سے بمشکل اترسکے۔ تینوں لاشیں بھی سخت گرمی میں دھوپ کی وجہ سے جل کر مسخ ہوگئی تھیں۔ تینوں افراد کی بعد ازاں تربت میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس واقعہ کے بعد ورثاء نے مقامی انتظامیہ سے لاشیں اتارنے کیلئے مدد مانگی لیکن جہیند بلوچ کے مطابق تمام تر کوششوں کے باوجود ضلعی انتظامیہ ،لیویز فورس اورشہید انجینئرز کے متعلقہ محکمے سی اینڈ ڈبلیو اور ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران بھی لاشیں اتارنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔ ہم سرکاری دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک گئے لیکن انتظامیہ انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ جہیند بلوچ نے بتایا کہ وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں نیچرل سائنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم چھوڑ کر تین ماہ سے تربت اور کوئٹہ میں ڈپٹی کمشنر،کمشنر مکران اور سول سیکریٹریٹ میں سرکاری دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں۔ چیف سیکریٹری بلوچستان کی جانب سے باقاعدہ احکامات جاری ہونے کے باوجود کمشنر مکران اور ضلعی انتظامیہ لاشیں اتارنے کیلئے ٹیمیں پہاڑ پر بھیجنے سے انکاری ہیں۔ جہیند بلوچ نے بتایا کہ لاشوں کو باقاعدہ تدفین نہ ہونے پر ورثاء بے چین ہیں۔ ہماری مائیں ، بہنیں اور پورا خاندان کرب سے گزر رہا ہے۔ بڑے بھائی بیبگر بلوچ سیندک پراجیکٹ میں کیمیکل انجینئر کی نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھے ہیں تاکہ اہلخانہ کو سنبھال سکیں جبکہ میں گزشتہ چالیس دنوں سے روز کوئٹہ میں ایک سے دوسرے دفتر کے چکر لگاتا ہوں تاکہ ضلعی انتظامیہ پر دباؤ ڈال سکوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد اور ان کے دونوں ساتھی انجینئر اپنے ذاتی کام سے نہیں بلکہ سرکاری احکامات پر منصوبوں کا معائنہ کرنے گئے تھے اور اپنے فرض کی راہ میں جانیں قربان کیں۔ اب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پہاڑ سے لاشیں اتار کر ورثاء کو ذہنی کرب سے نجات دلائے۔ جہیند بلوچ نے بتایا کہ عبدالمالک بلوچ نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں پی بی 50 دشت تمپ کے بارہ سکیموں کے انسپکشن کا حکم دیا تھا۔ان منصوبوں کیلئے ان کے سیاسی مخالفین کے دور میں پیشگی ادائیگی کی گئی تھی ۔ وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے احکامات پر محکمہ اربن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے 14ستمبر 2015ء کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں ان منصوبوں کے انسپکشن کیلئے کمشنر مکران ڈویڑن کی سربراہی میں چار رکنی ٹیم تشکیل دی تھی جس میں سرپٹنڈنٹ انجینئر آئی اینڈ پی ڈیپارٹمنٹ مکران دویڑن، سپرٹنڈنٹ انجینئر سی اینڈ ڈبلیو مکران ڈویڑن، ایگزیکٹیو انجینئر سی اینڈ ڈبلیو تربت شامل تھے۔ کمیٹی کو خود جاکر منصوبوں کا معائنہ اور اس پر پیشرفت کا جائزہ لیکر رپورٹ پیش کرنا تھی۔ کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران پہلے تو معاملے کو ٹالتے رہے لیکن جب وزیراعلیٰ ہاؤس سے دباؤ آیا تو خود جانے کی بجائے اپنے ماتحت جونیئر عملے کو سیکورٹی کے بغیر نوگو ایریا میں بجھوایا۔ اس علاقے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر کوئی سرکاری دفتر فعال نہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلدار دشت کی بجائے ضلعی ہیڈکوارٹر تربت میں بیٹھتے ہیں جبکہ اسی علاقے سے دو سال قبل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو پوری سیکورٹی عملے کے ہمراہ اغواء کرلیا گیا تھا۔ علاقے میں سرکاری افسران اپنے والدین کی تدفین اور فاتحہ خوانی تک نہیں جاتے۔ جہیند بلوچ نے بتایا کہ اس حد تک سیکورٹی خدشات موجود ہونے کے باوجود بغیر سیکورٹی کے ماتحت عملے کو بجھوانے پر کمشنر مکران اور کمیٹی کے دیگر ممبران کے خلاف کارروائی ہو اور اس غفلت کی تحقیقات کرواکر ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔جہیند بلوچ نے بتایا کہ سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ بھی اس معاملے پر چپ سادھ بیٹھے ہیں۔ان کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں عبدالمالک بلوچ سے کہاہے کہ جس طرح انہوں نے سیاسی مخالفین کے کرپشن کو بے نقاب کرنے کیلئے ان کے دور کے منصوبوں کے معائنے کیلئے ٹیمیں بجھوانے کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔ اب ان کے اس اقدام کے نتیجے میں جانیں گنوانے والوں کی لاشیں اتارنے کیلئے بھی اثر و رسوخ استعمال کریں لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود عبدالمالک بلوچ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شہید انجینئر رحیم جان کے چچا زاد بھائی انجینئر اکرم نے بتایا کہ واقعہ کے بعد سے پورا خاندان انتہائی کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہے۔ رحیم جان کی اکلوتی دوسالہ بیٹی ماہان روز بابا کو یاد کرتی ہے۔ ہم انہیں جھوٹ بولتے ہیں کہ بابا کراچی گئے ہیں۔ بابا گوادر گئے ہیں۔ رحیم جان خود بھی والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اپنے بچوں ، والدین اور دو بہنوں کا واحد سہارا تھے۔ اسی طرح شہید انجینئر فدا بلوچ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بھی کم عمر ہیں اور سانحے کے بعد سے ان کا پورا خاندان بھی ڈسٹرب ہے۔ تینوں شہید انجینرز کے خاندانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے پیاروں کی لاشیں پہاڑسے اتاری جائیں تاکہ ان کی آبائی قبرستانوں میں باقاعدہ تدفین ہوسکے اور متاثرہ خاندانوں کو ذہنی سکون مل سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تشکیل کردہ کمیٹی کے ممبران کی بجائے ماتحت عملے کو ترقیاتی منصوبوں کے معائنہ کیلئے بھیجنے اور بغیر سیکورٹی کے نو گو ایریا میں جانے پر مجبور کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، محتسب اعلیٰ بلوچستان، گورنر،وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری بلوچستان سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیاہے۔