کوئٹہ:چیمبرآف کامرس کوئٹہ بلوچستان کے صدرجمال ترہ کئی ودیگر نے کہاہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے امپورٹرز وایکسپوٹرز کیلئے آئی فارم کو ضروری قراردئیے جانے سے پاک ایران وپاک افغان بارڈر ٹریڈ مکمل طورپر رک چکاہے اسی لئے حکومت کو کوئی ریونیو مل رہی ہے اورنہ ہی امپورٹ اورایکسپورٹ کاسلسلہ جاری ہے ،آئی فارم نظام کو لاگو کرنے سے قبل حکومت ہمسایہ ممالک ایران اورافغانستان کیساتھ بینکنگ نظام توفعال کریں ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طورپر بلوچستان کی تجارت سے وابستہ افراد کو آئی فارم سے استثنیٰ دی جائے بصورت دیگر عدلیہ سے رجوع کرنے سمیت احتجاجی تحریک چلائینگے ۔ان خیالات کااظہارانہوں نے گزشتہ روز چیمبرآف کامرس کوئٹہ کے امجد صدیقی ایڈووکیٹ ،نیازی لالا ،اخترشاہ ،چیمبرآف کامرس چمن کے عبداللہ خان اورمرکزی انجمن تاجران کے صدر رحیم کاکڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔جمال ترہ کئی نے سانحہ سول ہسپتال میں شہید ہونیوالے وکلاء ،میڈیا نمائندوں اوردیگر کوخراج عقیدت پیش کیااورکہاکہ واقعہ میں صوبے بھر کی عوام کو سوگوارکردیاہے ۔انہوں نے کہاکہ صوبے میں بدامنی اوردیگر مسائل کے درآمدات اوربرآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ بہت سے سرمایہ کاروں نے یہاں سے سرمایہ بیرون صوبہ بھی منتقل کئے ہیں ایسے حالات میں حکومت اور بینکوں کو تجارت سے وابستہ افراد کے لئے خصوصی رعایت اور مراعات دینے کا اعلان کرنا چاہیے تھا تاکہ بلوچستان میں تجارت کو فروغ ملتا اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آتے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ انہوں نے کہاکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے یکم ستمبر 2016 کو ایک نوٹیفکیشن / سرکلر نمبر FEI/2016 کا اجراء کیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی امپورٹر کو مال امپورٹ کرنے کے لئے الیکٹرانک فارم آئی ضروری قرار دیا گیا ہے اس کے بغیر امپورٹ ممکن نہیں ہوگی ، آئی فارم کے لئے متعلقہ کمرشل بینک سے تصدیق اور امپورٹ جی ڈی کے ساتھ منسلک ہونا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے جب تک متعلقہ کمرشل بینک سے تصدیق اور امپورٹ جی ڈی کے ساتھ منسلک نہ ہو اس مال کو امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور پسماندہ صوبہ ہے میں پانی اور بجلی کی نہ صرف کمی ہے بلکہ بدقسمتی سے اس کا تجارتی اور مینو فیکچرنگ سیکٹر بھی روز اول سے نظر انداز ہوتا رہا ہے اسی لئے تو کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے زیادہ تر اراکین بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہیں جن میں بڑی تعداد ان امپورٹرز کی ہیں جو ایران کے تجارت سے وابستہ افراد کے ساتھ امپورٹ بزنس جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے باعث وہاں سوفٹ کوڈ کمرشل بینکوں کو الاٹ ہی نہیں کیا گیا ہے اسی لئے تو ایران میں ایسا بینکنگ نظام موجود ہی نہیں کہ جس کے ذریعے وہاں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کے ساتھ بینک کے ذریعے تجارت کیا جاسکے ۔ ہم پہلے ہی گوش گزار کرچکے ہیں کہ یہاں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کی بڑی تعداد بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے یہاں کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز دوسرے ممالک کے تجارت سے وابستہ افراد سے مال کے بدلے مال ہی لیتے ہیں یا پھر کسی تیسرے ملک سے جہاں پابندی نہ ہو تجارت کی جاسکتی ہے یہ طریقہ کار تجارت سے وابستہ افراد کے لئے نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ تجارتی اخراجات میں اضافے نے بھی تجارت کو ناممکن بنادیا ہے ایسے حالات میں ای ایف آئی پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ ایک سوفٹ ویئر کوڈ ایران کے متعلقہ کمرشل بینکوں کو دیا جائے کیونکہ سافٹ وئیر کوڈ نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے کمرشل بینک بھی اس کے قابل نہیں کہ وہ ای ایف آئی فارم کا اجراء کرسکے