|

وقتِ اشاعت :   September 6 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری سے قبل افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے جنرل مشرف کے آپریشن کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں اپنے گھروں سے ہجرت کر کے جانے والے بلوچوں کی واپس بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں بلوچ علاقوں میں 60فیصد بلوچوں کے قومی شناختی کارڈ کا اجراء نادرا یقینی بنائے اور افغان مہاجرین کو جعل سازی کے ذریعے جاری شناختی کارڈز منسوخ کئے جائیں ان اقدامات کے باوجود بلوچ مردم شماری کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے قومی مفادات اولین ترجیح ہیں آئینی و قانون طور پر اس مردم شماری کی حیثیت نہیں ہو گی دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ملک میں غیر ملکیوں کی موجودگی میں مردم شماری کرائی جائے مہاجرین کی غیر قانونی آباد کاری کو جائز قرار نہیں دیتا جا سکتا بیان میں کہا گیا کہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجرین خاندانوں نے بلوچستان سے شناختی کارڈز سمیت دیگر دستاویزات کر چکے ہیں 1979ء کے بعد سے اب تک جتنے بھی شناختی کارڈز بلوچستان میں بنائے گئے ان کی بلاتفریق تصدیق کا عمل شروع کیا جائے جتنے بھی نادرا و دیگر سرکاری اہلکار جعل سازی میں ملوث پائے گئے ہیں اس سے کی گئی تحقیقات سے عوام کو آگاہ کیا جائے افغان مہاجرین نہ کہ بلوچ اور بلوچستانیوں کے لئے مسائل کا سبب بن چکے ہیں ان کو باعزت طریقے سے افغانستان واپس بھیجا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ عرصہ دراز سے افغان مہاجرین کو بلوچستان میں کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ بلوچستان کی معیشت پر قابض ہو کر ملکی شہریت حاصل کریں بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ مردم شماری سے قبل چالیس لاکھ افغان مہاجرین کوواپس بھیجا اور بلوچوں کی دوبارہ اپنے علاقوں میں آبادکاری سمیت 60فیصد بلوچ جو شناختی کارڈز سے محروم ہیں انہیں جاری کئے جائیں تب ہی مردم شماری صاف شفاف اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہوں گے کوئی بھی قانون اس بات کا اختیار نہیں دیتا کہ مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کرائی جائے ہماری نو ہزار سالہ تاریخ ، تہذیب و تمدن ہے بلوچستان کو ہمارے آباؤ اجداد کو کسی نے خیرات میں نہیں دی بلکہ ہر سامراج کا مقابلہ کر کے اپنی قومی تشخص و بقاء کی جدوجہد کی ہے صوبے میں مہاجرین پر کسی قسم کی کوئی پابندی تھی نہ ہی کیمپوں تک محدود کیا گیا اسی لئے آج بلوچستان میں جتنے بھی قتل و غارت گری کے واقعات ، انتہاء پسندی ، مذہبی رجحانات سمیت کئی مسائل نے ان کی وجہ سے جنم لیا خیبرپختونخواء میں افغان مہاجرین سے متعلق پالیسیاں واضح ہیں جبکہ بلوچستان میں اب بھی صوبائی حکومت کی مشینری کو افغان مہاجرین کیلئے استعمال میں لایا جا رہا ہے پارٹی کا شروع سے موقف یہی ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں مسلمہ قوانین کے برخلاف انہیں آباد کیا جا چکا ہے اور انہیں دستاویزات بھی جاری کئے جا رہے ہیں ان کے پیچھے بہت سے جماعتیں صرف اپنی گروہی مفادات کی خاطر برسرپیکار ہیں ان کی حمایت کر رہے ہیں پارٹی بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجر بلوچوں کیلئے مسائل کا سبب اتنا نہیں بنیں گے کیونکہ ایک وسیع و عریض باوسائل سرزمین پر آباد ہیں جبکہ بلوچستانیوں کیلئے ضرور مسائل کا سبب بنیں گے بالخصوص پشتونوں کیلئے لیکن اس کے باوجود اب بھی بہت سی جماعتیں کہتی ہیں کہ انہیں بلوچستان میں رہنے دیا جائے اور اب بھی ان کی کوشش ہے کہ ان کے بلاک شدہ شناختی کارڈز کا اجراء ممکن ہو ریاستی ادارے اب اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں اور نادرا کے حکام کی گرفتاریوں اور اہم انکشافات نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے ہماری موقف حقیقی اور سچائی پر مبنی تھی لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے بلوچستان سے جعلی شناختی کارڈز پیسے یا سیاسی دباؤ کے تحت حاصل کئے جس کا واضح ثبوت موجودہ و سابق ایم پی ایز سے تصدیق سے بنائے گئے شناختی کارڈز ہیں اب اسلام آباد کے حکام بالا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں جعل سازی کے تحت جاری کئے گئے شناختی کارڈز کو منسوخ کر کے ان کی تصدیق جوائنٹ انسوسٹی گیشن سے کرائی جائے اور تحقیقات مکمل کی جائیں اور عوام کے سامنے تمام حقائق لائے جائیں بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کو سیاسی یتیم خانہ نہ سمجھا جائے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان حکومت بھی ایسی پالیسیاں ترتیب دے جس سے فوری طور پر افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود کیا جائے اور اس کے بعد ان کی باعزت واپسی کیلئے حکمت عملی ترتیب دیں حالانکہ بہت سے شوائد سامنے آ چکے ہیں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ مہاجرین نے لاکھوں میں تعداد میں بلوچستان سے شناختی کارڈز حاصل کئے جس سے ملک کی جگ ہنسائی بھی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود سابق و موجودہ صوبائی حکومتوں نے اب تک اپنی پالیسی واضح نہیں کی کہ اس متعلق ان کی پالیسی کیا ہے خیبرپختونخواء حکومت نے بھی ان کے انخلاء کے حوالے سے پالیسی واضح کر دی ہے