|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2016

پاکستان بھر میں عید قرباں آج منائی جارہی ہے عید منانے کا مقصد حضرت ابراہیم کی سنت کو یاد رکھنا اور اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا ہے ۔ مال کی قربانی کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد سماج کے کمزور طبقات کی مدد کرنا بھی ہے ۔ عیدالالضحیٰ بڑے زور و شور سے منائی جارہی ہے۔ بکرا منڈیو ں میں آخری دنوں میں زبردست رش نظر آیا لیکن توقع کے مطابق جانوروں کی خریداری نہیں ہوئی بعض بیوپاریوں نے عید قربان کے خاص موقع پر بعض جانور تیار کیے تھے تاکہ عید کے دن قربانی کے لئے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ بعض بیل اور اونٹوں کی قیمت 40لاکھ روپے تک لگائی گئی، دولت مند حضرات نے انتہائی مہنگے جانور قربانی کے لئے خریدے تاہم خریدو فروخت کا سلسلہ زیادہ تیز نہیں تھا کیونکہ ملک کی معیشت زیادہ مستحکم نہیں ہے اور زیادہ تر لوگوں کے پاس یہ استطاعت نہیں کہ وہ قربانی کا جانور خریدیں۔ملک میں غربت اور ناداری زیادہ ہے اس لئے کم تر لوگوں کی تعداد بکرا منڈی کا رخ کیا،زیادہ استطاعت رکھنے والے لوگوں نے ایک سے زیادہ جانور خریدے۔ عید قرباں کے موقع پر بچوں نے زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور قربانی کے جانوروں کے ساتھ اپنی تصاویر بھی بنوائیں تاہم اس خوشی کے موقع پر اکثر لوگ پریشان بھی ہیں اور ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے دعاگو ہیں کیونکہ ہمارا ملک چاروں طرف سے مسائل اور خطرات سے گھرا ہوا ہے حکمرانوں کو ان معاملات کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے ۔ بلکہ حکمران اپنے ذاتی مسائل اور دولت کمانے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں جبکہ ملک چاروں طرف سے خطرات سے گھرا ہوا ہے ایک طرف افغانستان اپنا مکمل دباؤ پاکستان پر بر قرار رکھے ہوئے ہے اور آئے دن کسی نہ کسی بہانے کوئی مسئلہ کھڑا کرتا رہتا ہے ، ایران سے ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، ان میں دوبارہ گرم جوشی کے آثار نہیں ہیں ۔ ایران پاکستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور آئے دن سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیاں کرتا رہتا ہے جس میں اکثر ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ آج کل ایران یہ الزام لگار ہا ہے کہ سعودی عرب کے امدادی تربیت یافتہ افرادایران کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ حکومت پاکستان نے ابھی تک ان الزامات کا جواب نہیں دیا کہ سعودی عرب پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال کررہا ہے سب ان معاملات میں خاموش ہیں پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعات کے بعد ان کشیدہ تعلقات میں اضافے کا رحجان صاف طورپر نظر آرہا ہے دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے کہ نہتے کشمیریوں کی بھارتی مسلح افواج سے دست بہ ست جنگ جاری ہے۔ صرف کل ہی کے دن ان جھڑپوں میں 250سے زائد افراد زخمی ہوئے اور چار کشمیری مجاہدین کو ایک مسلح تصادم میں ہلاک کیا گیا ۔پاکستان حکومت کی طرف سے ابھی کوئی اشارہ نہیں ملا کہ کشمیر میں اس طویل ترین بغاوت کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پیش کیاجائے گا شاید موجودہ حکومت اس پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ شملہ معاہدہ یا دو طرفہ بنیاد پر کشمیر کے مسئلے کو حل کیاجا سکتا ہے بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ شملہ معاملہ سے زیادہ اہم اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کی قرار دادیں ہیں جن پر عمل کرکے کشمیر کے مسئلے کا حل نکالا جائے لیکن پاکستان کی حکومت نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے کہ کشمیری مقبوضہ وادی میں سڑکوں پر ہیں اور بھارت کے کشمیر پر فوجی قبضے کی زبردست طریقے سے مزاحمت کررہے ہیں ۔عید قرباں اس موقع پر حکمرانوں سے قربانی کی توقع کھتا ہے کہ وہ ذاتی فوائد کو چھوڑ دیں اور ملکی مسائل کو حل کریں بلکہ پاکستان کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ بنائیں یہی عید قرباں کا پیغام ہونا چائیے جس کو عوام قبول کریں گے۔