زمانہ قدیم سے تھانہ کلچر پر پنجاب کی اجارہ داری رہی ہے ۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد پنجاب سے افسران اور پولیس کے سپاہیوں کو ون یونٹ کے نام پر دوسرے صوبوں میں بھی تعینات کیا گیا ۔کے پی کے کی حکومت، عوام اور انتظامیہ نے اس کی زبردست مزاحمت کی اس لیے وہاں کم سے کم پنجابی افسران تعینات کیے گئے ۔ مگر اس کے باوجود پاکستان پولیس سروس کے نام پر اعلیٰ عہدوں پر پنجابی افسران کو تعینات کیا گیا مگر ان کا اثر ورسوخ محدود رہا اور پنجاب کا تھانہ کلچر کے پی کے کا رخ نہ کر سکا کیونکہ اس کی زبردست مزاحمت ہوئی ۔ مقابلتاً کے پی کے کی پولیس کچھ زیادہ عوام دشمن نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وہاں کم نظر آئیں ۔ بہر حال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کے پی کے پولیس بھی اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگی جو پنجاب، سندھ اور کسی حدتک بلوچستان میں بھی پولیس استعمال کرتی رہی ہے ۔ اس سے قبل سندھ پولیس میں کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی بلوچستان میں پولیس کے اختیارات محدود تھے اور صرف پولیس کوئٹہ اور چند ایک شہروں میں تعینات تھی اس لئے بلوچستان پولیس کواپنے کمالات دکھانے کا موقع کم ملا تاہم پنجاب میں زیر حراست ملزموں کا قتل، انکو اذیتیں دینا ایک عام بات تھی بلکہ ایک دور میں وزیراعلیٰ پنجاب نے تمام بڑے بڑے جرائم پیشہ افراد کو دیکھتے ہی گولیوں سے اُڑانے کا حکم دیا یوں پنجاب پولیس جعلی مقابلے کراتی رہی اور ’’غیر پسندیدہ ‘‘ افراد جس میں بعض مخالفین بھی شامل تھے وزیراعلیٰ کے احکامات پر ہلاک کیے گئے۔ اس سے قبل مغربی پاکستان کے گورنر نواب کالا باغ بھی اس قسم کی کارروائیاں کراتے رہے ہیں سیاسی مخالفین کو انہوں نے خصوصاً نشانہ بنایا بعض اوقات انہوں نے پولیس کو استعمال نہیں کیا بلکہ جرائم پیشہ افراد کو استعمال کیا اور مخالفین راستے سے ہٹانے کی کوشش کی اور طلباء خصوصاً پولیس کی بربریت کا شکار ہوئے یہ کام انہوں نے پورے مغربی پاکستان میں بلا امتیاز کیا جس کے وہ منتظم اعلیٰ تھے۔ ایوب خان کی فوجی حکومت میں نواب کالا باغ دست راست تھے اور انہوں نے پولیس کا بے رحمانہ استعمال کیا خصوصاً اپنے سیاسی مخالفین اور ان طلباء کے خلاف جو جمہوریت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف نبرد آزما تھے۔ بلوچستان میں اکثروبیشتر حالات ، حالت جنگ جیسی رہی ہیں اور بلوچستان 1948ء سے لے کر آج تکConflict Zone رہا ہے یہاں پر سیاسی مخالفین کو سخت ترین اقدامات کا سامنا کرنا پڑا تھا بھٹو کے دور میں پنجاب سے تربیت یافتہ پولیس افسر بلوچستان لائے گئے جو ٹارچر ،اذیت دینے میں مشہور تھے ۔ ان میں سے بعض کا نام ’’ ہلاکو خان ‘‘ رکھ دیا گیا ۔ انہوں نے بلوچ سیاسی مخالفین کو اذیت ناک سزائیں دیں اور بعض کو زیر حراست ہلاک کیا ۔ حالیہ دنوں میں کئی ایک واقعات ہوئے ہیں جن میں زیر حراست قیدیوں کو قتل کردیا گیا اور ان واقعات کو بعض لوگوں خصوصاً رشتہ داروں نے جعلی مقابلوں کے نام سے پکارا۔اس میں نصیر آباد کے واقعات زیادہ توجہ طلب ہیں جہاں پر پولیس کے خلاف زیادہ شکایات موصول ہورہی ہیں اخباری اطلاعات کے مطابق کرپشن عام ہے اور پولیس قیدیوں پر تشدد اس لئے کررہی ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ رشوت چائیے ۔ انسانی حقوق کمیشن پورے نصیر آباد ڈویژن کا دورہ کرے اور ان الزامات کی چھان بین کرے کہ پولیس زیر حراست ملزمان کے خلاف تشد دکرتی ہے ، رشوت عام ہے اور ان پولیس افسران کو مقامی سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے بلکہ اخبار نویس اور ایچ آر سی پی کے لوگ ان تمام الزامات کی تحقیقات کریں اور عوام کو ان الزامات کے خلاف گواہی دینے پر آمادہ کیاجائے ۔یہ صوبائی حکومت کی آئینی ،قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ زیر حراست ملزمان کو اذیتیں نہ دی جائیں اور سزا صرف اور صرف عدالتیں سنائیں کسی سرکاری اہلکار خواہ وہ کوئی بھی ہو ،زیر حراست ملزمان پر کسی قسم کا تشدد کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ بلوچستان کو تھانہ کلچر کے عذاب سے بچایا جائے بلکہ سیاسی جماعتیں اور کارکن بھی اس عمل کی مزاحمت کریں ۔
بلوچستان میں تھانہ کلچر
وقتِ اشاعت : September 17 – 2016