|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2016

واشنگٹن : اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کا معاملہ اٹھانے کی تیاری کررہا ہے جبکہ انڈیا نے اس کا جواب بلوچستان کا معاملہ اٹھاکر دینے کی منصوبہ بندی کی ہے تاہم امریکا نے واضح کردیا ہے کہ وہ اس تناظر میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا اور غیر جانبدار رہے گا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کشمیر کے حوالے سے امریکی پالیسی واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارا موقف تبدیل نہیں ہوا اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان اس مسئلے کو باہمی طور پر حل کریں‘۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں قرار داد پیش کرنے میں امریکا کا بھی کردار تھا جس میں کشمیریوں کو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحقاق کے لیے استصواب رائے کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔تاہم گزشتہ دہائیوں کے دوران امریکا کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے اور اب وہ کہتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو مسئلہ کشمیر پر دوطرفہ بات چیت کرنی چاہیے۔21 اپریل 1948 کو سیکیورٹی کونسل نے اپنے 286 ویں اجلاس میں مذکورہ قرار داد کو منظور کیا تھا اور اس کے دیگر اسپانسرز میں بلجیم، کینیڈا، چین، کولمبیا اور برطانیہ شامل تھے۔جب محکمہ خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اٹھانے کی حکمت عملی کو کس طرح دیکھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کہاں اور کس سے بات کرتے ہیں‘۔واضح رہے کہ کشمیر میں دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری کشیدگی میں اب تک 100 کے قریب کشمیری ہلاک اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔اس صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق شہزادہ زید رعد زید الحسین نے کہا تھا کہ کشمیر میں ہلاکتوں کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات اب ناگزیر ہوچکی ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ہندوستان سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کے نمائندوں کو کشمیر تک رسائی دے تاہم اجازت دینے کے بجائے انڈٰین عدالت نے بین الاقوامی تنظیم کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔اسلام اآباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان بھرپور طریقے سے کشمیر کا معاملہ اٹھائے گا۔جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نیویارک پہنچ چکے ہیں اور وہ 21 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے جبکہ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج 26 ستمبر کو خطاب کریں گی۔نواز شریف نے دنیا بھر میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے 20 ارکان پارلیمنٹ کو نامزد کیا تھا ان میں سے سینیٹر مشاہد حسین اور آزاد جموں کمشیر کے صدر مسعود خان آئندہ ماہ واشنگٹن کا دورہ کریں گے اور مسئلہ کشمیر سے امریکی تھنک ٹینکس اور امریکی رہنماؤں کو آگاہ کریں گے۔ہندوستان اور جنرل اسمبلی کے اجلاس اور دیگر عالمی فورمز میں پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر اٹھانے کا جواب بلوچستان کا معاملہ اٹھاکر دینے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ ’بلوچ قوم بھی پاکستان سے آزادی چاہتی ہے اور انہیں عالمی تعاون کی ضرورت ہے‘۔ہندوستان امریکا میں بعض بلوچ رہنماؤں کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب کے دوران اقوام متحدہ کے باہر احتجاج کی کوششوں کی بھی حمایت کررہا ہے۔پاکستان اور ہندوستان دونوں کی خواہش ہے کہ امریکا اس معاملے میں ان کے موقف کی حمایت کرے تاہم بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے کسی کی طرف داری نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔جان کربی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات کی بات کرنا پاکستان کے لیے مایوس کن ہے تاہم بلوچستان کے حوالے سے ان کا بیان ہندوستان کے لیے بھی زیادہ خوش آئند نہیں تھا اور انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ امریکا پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا۔علاوہ ازیں جان کربی نے اپنی پریس بریفنگ میں کراچی کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کراچی کی صورتحال کو انتہائی قریب سے مانیٹر کررہے ہیں، ہمیں علم ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ایم کیو ایم کے بعض رنماؤں کو گرفتار کیا ہے جبکہ ان کے دفاتر کو بند اور مسمار بھی کیا جارہا ہے‘۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے محکمہ خارجہ کو باضابطہ طور پر کوئی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں یا خدشات ظاہر کیے گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’میں اس بارے میں علم نہیں کہ ایم کیو ایم کے کسی رکن نے باضابطہ طور پر ہم سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہو‘۔انہوں نے کہا کہ ہم ایسے معاملات پر اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے معمول کے مطابق رابطے کرتے رہتے ہیں۔