اڑی سیکٹر میں فوجی کیمپ پر دہشت گردانہ حملوں میں 17فوجی اہلکار ہلاک اور بیس افراد زخمی ہوئے ۔یہ حملہ نا معلوم مسلح افراد نے کیا ، ابھی تک کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن واقعہ کے فوراً بعد بھارتی حکام اور بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کردیا کہ اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں اور اس میں لشکر طیبہ جو ایک جہادی تنظیم ہے اس حملے کامرکزی کردار ہے۔ اس کے فوراً بعد پورے بھارتی میڈیا نے پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا جو صبح سے شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہا ۔ بھارت کے مختلف رہنماؤں خصوصاً وزراء اور وزیراعظم نے براہ راست پاکستان پر الزامات لگائے جو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے فوری طورپر یکسر مسترد کردئیے ۔ تاہم اس واقعہ کے بعد پورے خطے میں ایک غیر یقینی صورت حال اس وقت پیدا ہوگئی جب بھارتی وزیراعظم اور ان کے دیگر وزراء نے پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی ۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ بھارت کنٹرول لائن کے آر پار کشیدگی میں اضافہ کرے گا اور پاکستانی چوکیوں اور سرحدی قصبات پر فائر اور گولے داغے گا ۔ یا وہ اپنی مسلح افواج کو دوبارہ پاکستان کی سرحدوں پر کھڑا کر دے گا اور اس طرح سے پاکستان پر اپنا دباؤ بر قرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔
بہرحال ان تمام واقعات میں پاکستان ملوث نہیں ہے خطے میں کشیدگی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کے مسلح افواج کسی بھی گروہ کو سرحد کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دے گی یعنی غیر ریاستی کارندوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اڑی سیکٹر میں جہاں یہ واقعہ ہوا ہے وہاں پر غیر ریاستی دہشت گرد نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا یہ بھارت کے مسلح افواج کی اپنی کارروائی معلوم ہوتی ہے ابھی تک تمام معلومات کے بعد یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں کہ بھارت کے مسلح افواج اور اس کے ادارے اڑی سیکٹر میں دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہیں پاکستان اور اس کے غیر ریاستی عناصر اس میں ملوث نہیں ہیں ۔ اس لئے دفتر خارجہ کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے اور حکومت پاکستان نے یہ طے کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری اور خصوصاً اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل کو ان تمام شواہد سے آگاہ کرے گا تاکہ بھارت اس واقعہ کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ یہ اب مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارتی حکام نے یہ ڈرامہ رچایا تا کہ دنیا کی توجہ کشمیریوں کی جدوجہد سے ہٹائی جائے ۔ کیونکہ نہتے کشمیری شہری سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں ۔ بھارتی پولیس اور مسلح فوجی دستے ان پر گولیاں چلا رہے ہیں ابھی تک 105افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ یہ ہلاکتیں سڑکوں پر ہوئیں اور یہ سب کے سب پولیس اوربھارتی مسلح افواج کی گولیوں سے ہوئی ہیں ۔ یہ اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ پر امن طورپر سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے ایک نوجوان کشمیری مجاہد کی ہلاکت کے بعد پورے کشمیر میں احتجاج شروع ہوا اور آج اس احتجاج کو73دن مکمل ہو چکے ہیں ۔ بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کے طول و عر ض میں کرفیو لگاناپڑا ہے 105 افراد کی ہلاکتوں کے علاوہ 12ہزار سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں ان سب کو بھارتی مسلح دستوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے بھارت کی سب سے بڑی پریشانی یہ نہ ختم ہونے والا احتجاج ہے جو کشمیری مرد اور خواتین ‘ بوڑھے بچے سب ہی اپنے وطن کی بھارت سے آزادی کے لئے کررہے ہیں ۔ بھارت احتجاج پر قابو نہ رکھ سکا اور یہ احتجاج مقبوضہ کشمیر کی تمام گاؤں ’ دیہاتوں اور شہروں میں پھیل چکی ہے اور یہ قابو سے باہر ہوگیا ہے ۔ اس لئے دنیا کی توجہ اس احتجاج سے ہٹانے کے لئے بھارتی فوج نے دہشت گردانہ حملے کا ڈرامہ رچایا ہے اور پاکستان پر الزامات لگائے ہیں کہ کشمیری احتجاج کو حکومت پاکستان نے شہہ دی ہے خصوصاً ایسے وقت میں وزیراعظم پاکستان کشمیر کا مسئلہ دوبارہ جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اٹھائیں گے اور بین الاقوامی ادارے کے سامنے ثبوت پیش کریں گے کہ کشمیر کے عوام صرف اور صرف آزادی چاہتے ہیں اور بھارت بندوق کے زور پر ان کو غلام رکھنا چاہتا ہے اس لئے بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنی مسلح افواج مقبوضہ کشمیر سے نکال لے اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام استصواب رائے کرے اور اس طرح سے اقوام متحدہ کے قراردادوں پر عمل کروایاجائے ۔
کشمیر پر چوتھی جنگ کی تیاریاں
وقتِ اشاعت : September 20 – 2016