کوئٹہ:بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ کل جنیوا میں بلوچ سندھی مشترکہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ بلوچوں کی طرف سے بی این ایم کے خارجہ سیکرٹری و اسپوکس پرسن حمل حیدر اور بی این ایم کے کئی کارکنوں نے شرکت کی۔ جبکہ سندھو دیش کی نمائندگی ورلڈ سندھی کانگریس کے لکھو لوہانہ اور دوسرے کئی کارکناں کر رہے تھے۔ مظاہرے میں افغانستان، گلگت بلتستان، کشمیر کے نمائندے بھی موجود تھے۔ مظاہرین نے سندھ و بلوچستان میں پاکستانی مظالم کے بارے میں پلے کارڈ اور تصویریں اُٹھائی ہوئی تھیں ۔ مظاہرین نے سی پیک اور چین کے خلاف نعرے بازی بھی کی اور کہا کہ مظالم میں چین پاکستان کے ساتھ برابر شریک ہے۔ کیونکہ سی پیک معاہدے کے بعد بلوچ نسل کشی میں نہایت شدت لائی گئی ہے۔ اسی دن اقوام متحدہ میں ایشین لیگل ریسورس سنٹر (اے ایل آر سی) کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور وکلاء کے قتل عام پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ نوید بصیر، حمل حیدر بلوچ، شوکت کشمیری، لکھو لوہانہ، روبینہ، گلگت بلتستان اور یو این پی او کے نمائندوں نے تقاریر کیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں، مقبوضہ قوموں کے وسائل کی لوٹ مار اور لوگوں کو اُٹھا کر غائب کرنے پر پاکستانی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو کئی مختلف گروہوں کے ذریعے منظم کیا جا رہا ہے، جس میں ریاست براہ راست ملوث ہے۔ ساتھ ہی ریاست داعش کو بھی بلوچستان میں منظم کر رہاہے۔ گزشتہ دنوں پنجگور کے علاقے گچک میں ذگریوں کے مقدس مقامات کو جلا ڈالا اور ذگرانہ ( جو ذگریوں کے عبادت گاہ ہے) کو نقصان پہنچایا۔ یہ مذہبی شدت پسند گاڑیوں میں آئے تھے جن پر داعش کی علامتیں واضح تھیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ داعش کے جھنڈے اُٹھا ہوئے تھے۔ان عبادت گاہوں کو جلانے کے بعد داعش کی گاڑیاں گچک میں داخل ہوئے ہیں۔ ذگریوں کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ سو فیصد بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بلوچ نسل کشی میں اپنی ریگولر آرمی کے ساتھ ساتھ داعش اور اپنی دوسری مذہبی پراکسیوں کو بھی استعمال کر رہاہے۔ ذگریوں کو نشانہ بنانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں داعش اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف سرگرم ممالک کو بلوچستان میں بھی مداخلت کرکے بلوچستان کو مذہبی انتہا پسندی کی آماجگاہ بننے سے روکا جائے۔ اس سے پہلے بھی ذگریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ آواران میں ذگری عبادت خانے پر حملہ کرکے سات ذگریوں کو شہید کیا گیا۔ گریشہ میں فوجی چوکی کے قریب ہی ذگری زائرین کی بس پر بم دھماکہ کیا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے آپریشن اور بمباریوں کے بعد اب اپنے مذہبی پراکسیوں کو سامنے لاچکا ہے۔ لشکر خراسان، لشکر اسلام ، لشکر جھنگوی اور داعش کو منظم کرکے بلوچ تحریک اور آزادی پسندوں کے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے۔ انہی عناصرنے گوادر میں بلوچ ماہر تعلیم زاہد آسکانی کو قتل کیا اور پنجگور میں اسکولوں پر حملے کرکے اسکول بند کروائے۔ لیکن ان کے خلاف کسی بھی اتھارٹی نے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کو اُٹھا کر غائب کرنے کا سلسلہ شدت سے جاری ہے۔ آج آواران بازار سے خالق نور ولد سلیم بلوچ اور داد جان ولد نذیر ، کل آواران تیرتیج سے مراد بخش ولد کیچو، اعظم ولد نبی بخش، اقبال ولد فیض محمد، سعید ولد محمد بخش، سنجر بلوچ، مولا بخش، افضل ولد میّا آدم ، تربت بالیچہ کے علاقے سرینکن سے ماسٹر صمد ولد چار شمبے، گل محمد ولد دلمراد، آدم ولد براہیم، داد شاہ ولد داؤد، غلام حسین ولد لعل محمد، حسن ولد اشرف ، کچھ دنوں قبل کوئٹہ سے محسن جمالدینی جبکہ کوئٹہ سے کومبنگ آپریشن کے نام پر کئی بلوچوں کو پاکستانی فوج نے اغوا کرکے لاپتہ کیا ہے۔ مند کے رہائشی فاروق ولد بابو کو گوادر اور سولہ ستمبر کو تربت آپسر سے بارہویں جماعت کے طالب علم امجد ولد سردُک اور اٹھارہ سالہ ماجد کو گھر سے اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔ مسخ شدہ لاشوں کی برامدگی بھی جاری ہے۔ سترہ ستمبرکو قلات سے دُرخان ولد عطا محمد ، اتوار کو حب سے امیر بخش اور آج پنجگور سے محمد جان ولد فیض محمد کی لاش برامد ہوئی جسے پندرہ مارچ 2013 کو پاکستانی فورسز نے چتکان سے اغوا کیا تھا۔