کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں لشکر خراسان اور نام نہاد داعش کے کارندوں کی جانب سے گچک میں ذکری بلوچوں کی مقدس مقامات کی نظر آتشگی کو بلوچ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی ریاستی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاستی کثیرالجہتی کاؤنٹر پالیسیاں شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ترجمان نے کہا کہ شروع سے ہی ریاست نے بلوچستان میں دینی تعلیم کے نام پر مدرسوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے، جہاں پر کمسن بچوں کی ذہنوں کو مذہبی شدت پسندی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ سیکیولر بلوچ معاشرے میں بڑی حد تک مذہبی شدت پسندی پھیلانے کی ریاستی پالیسیاں ناکام ہوئی ہیں لیکن چائنا کی سرمایہ کاری کو کامیاب بنانے کے لئے ریاست بجٹ کا ایک بڑا حصہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی پھیلانے کے لئے خرچ کررہا ہے۔ گوادر، پسنی سمیت چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے ملحقہ علاقوں میں اس طرح کی سرگرمیاں شدت سے جاری ہیں۔ چند مہینوں قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شائع ہوئی تھی جس میں ان مذہبی شدت پسندوں کو مکران کے ساحل میں زکری بلوچوں اور آزادی کی تحریک کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے دیکھایا گیا۔ مکران میں ان شدت پسندوں کے کیمپس بھی قائم ہیں جو کہ سڑکوں پر مسافروں سے ٹیکس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجگور میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف مہم چلانے والی تنظیم الفرقان الاسلامی، لشکرِ خراسان سمیت ڈیتھ اسکواڈ اور مذہبی شدت پسندوں کے دوسرے گروہ بلوچستان میں آپس میں منسلک ہیں جو کہ ریاست کی سرپرستی میں بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف سرگرم ہیں۔ مکران کے علاوہ جھالاوان اور سراوان سمیت رخشان میں بھی مذہبی شدت پسندی کے کئی مراکز قائم ہیں جو کہ لوگوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بلوچ سماج میں انتشار پھیلانے سمیت دوسرے فرقوں کی قتل عام کے لئے استعمال کررہے ہیں۔علاوہ از ایں ترجمان نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، آواران اور تمپ سے ایک درجن سے زائد لوگوں کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نسل کشی کاروائیاں بلا تعطل جاری ہیں۔ بی ایس او آزاد نے اس تشویشناک صورت حال پر عالمی اداروں کی خاموشی کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان جیسے اہم خطے میں اگر مذہبی شدت پسندی پھیلانے کی اجازت ریاست کو دی گئی تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی ۔