کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے متعلق قرار داد نمٹا تے ہو ئے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں تمام پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جو ایوان کی متعلقہ کمیٹی برائے ایریگیشن کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اپنی رپورٹ بنائے گی تا ہم بعدازاں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ نے مذکورہ کمیٹی میں نصیرآباد کے منتخب نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا،بلوچستان کو اس کے آبی وسائل کے بقایہ جات سے متعلق دو سری قرار داد پر بھی اراکین کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے وزیراعلیٰ کی قیادت میں تمام پارلیمانی لیڈرز پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی میں قرا داد کے محرکین کو بھی نمائندگی دی جائے جبکہ وزیراعلیٰ اپنی مرضی سے بھی اراکین کا انتخاب کرسکتے ہیں ۔گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی زیر صدارت شروع ہوا۔پٹ فیڈر کینال سے قرار داد وزیراعلیٰ کے مشیر محمدخان لہڑی نے پیش کیا قرار داد میں کہا گیا تھا کہ پٹ فیڈر کینالز کی تعمیر پر2004ء میں کام شروع ہوا تھا اور اس پر تاحال صرف 30فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن یہ اسکیم آج تک التواء کا شکار ہے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ پٹ فیڈر کے اضافی کینالز کے باقی ماندہ کام کو مکمل کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ علاقے کے عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور احساس محرومی کا خاتمہ ہوسکے ۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے محمدخان لہڑی نے کہا کہ پٹ فیڈر کینال کے لئے شروع میں 4ارب روپے رکھے گئے تھے جن میں اضافہ کرتے ہوئے پہلے6ارب روپے اور پھر ریوائز کرکے ساڑھے 8ارب روپے رکھے گئے انہوں نے کہا کہ منصوبے نے 2015ء میں مکمل ہونا تھا اور اس سے نصیرآباد اور جھل مگسی کی دو لاکھ ایکڑ اراضی کو آبادکرنا مقصد تھا مگر مسلسل تاخیر ہوتی گئی اوراس کے نتیجے مین سالانہ نقصان جو زمینداروں کوہورہا ہے وہ قریباً2ارب روپے سالانہ ہے عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کی مخالفت تو نہیں کررہا لیکن یہ تجویز ضرور دوں گا کہ اس حوالے سے پہلے ایک کمیٹی بنائی جائے جو متعلقہ محکمے سے بیٹھ کر پہلے معلومات لے اور پھر ان معلومات کی روشنی میں ایوان سے قرار داد پاس کرکے پھر جا کر وفاق سے بات کی جائے نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ پٹ فیڈر کینال بنیادی طو رپر خشکابے کا شکار زمینوں کے لئے بنا پھر حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے پانی کے اخراج کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے ایک معاہدہ ہوا مقصد یہ تھا کہ پانی کے اخراج کی صلاحیت کو32سو کیوسک سے بڑھا کر8ہزارچارسو کیوسک کردیا جائے2007ء میں آنے والے سیلاب کے باعث کینال میں مٹی بھرجانے سے اس کی کیپسٹی گم ہو کر32سو کیوسک رہ گئی اس کی کیپسٹی بڑھائی جائے انہوں نے کہا کہ اس وقت اس منصوبے کو ری ماڈیول کرکے اس کی سابقہ کیپسٹی بحال کرنے کی ضرورت ہے کینال سے کمانڈ ایریاتک چینلز ضروری ہیں اس حوالے سے بلوچستان ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی کے نام سے ایک اتھارٹی بھی بنی مگر یہ اتھارٹی بالکل ہی غیر فعال ہے اسے فعال کرنے کی ضرورت ہے اور چونکہ بلوچستان کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لئے اگر وفاقی حکومت نے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے تو بلوچستان کو وسائل کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی میر اظہار کھوسہہ نے کہا کہ پٹ فیڈر سے نصیرشاخ، باری شاخ،قیدی شاخ ، مگسی شاخ کے کینال نکلتے ہیں 1995ء میں قرض لے کر کام کرایا گیا اس وقت وعدہ تھا کہ 7ہزار کیوسک پانی دینا تھا مگر افسوس کہ اب تک ہمیں4ہزار کیوسک پانی دیا جارہا ہے قرار داد میں یہ اضافہ کیا جائے کہ کینال پختہ کرائے جائیں اس وقت ہمارے حصے کا پانی بھی سندھ لے جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس کینال نہیں ۔وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بارہ سال میں اس منصوبے کی تکمیل نہیں ہوسکی حالانکہ ہمارے صوبے کو پانی کی ضرورت ہے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ التواء میں کیوں ہے اس حوالے سے ایوان سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو جا کر متعلقہ حکام سے بات کرے اراکین کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے قرار داد کو نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں تمام پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جو ایوان کی متعلقہ کمیٹی برائے ایریگیشن کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اپنی رپورٹ بنائے گی اور اسمبلی میں پیش کرے گی بعدازاں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ نے مذکورہ کمیٹی میں نصیرآباد کے منتخب نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا۔دوسری قرار داد جو بلوچستان کو اس کے آبی وسائل کے بقایہ جات سے متعلق تھی پرنس احمدعلی نے ایوان میں پیش کی۔ مشترکہ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ 1981ء میں واپڈا اور بلوچستان حکومت کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ بلوچستان حکومت واجبات کی ادائیگی کو یقین بنائیں گی اور تواتر کے ساتھ ادائیگی کی جائے گی لیکن تاحال اب تک کوئی بھی ادائیگی عمل میں نہیں لائی گئی قرار داد کے متن میں مذکورہ رقم 10ارب روپے سے زائد بتائی گئی تھی تاہم قرار داد کے محرک کا کہنا تھا کہ یہ رقم اب 40ارب روپے سے تجاوز کرگئی ہے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈاپنے صارفینس ے ہر ماہ وصولی کررہی ہے اور بتدریج اضافہ بھی تجارتی بنیادوں پر لے رہا ہے مگر بلوچستان کو اس کے اپنے آبی وسائل کے واجبات سے محروم رکھ کر ناانصافی کی جارہی ہے ۔اس لئے صوبائی حکومت آبی وسائل کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے سندھ حکومت سے رجوع کرے انہوں نے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب حب ڈیم کا منصوبہ شروع ہوا تو اس میں ایک معاہدے کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ کراچی اور لسبیلہ کو پانی کی مقدار کا تعین کیا گیا تھا جبکہ حب شہر اور صنعتی زون کے لئے بھی پانی کی مقدار مقرر کی گئی تھی مگر بلوچستان کو اس کے حصے کی رائلٹی نہیں دی جارہی 2013ء میں ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے ذمے چالیس ارب روپے کے واجبات بنتے ہیں یہ سندھ حکومت سے لے کر صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئرزمرک خان اچکزئی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلی قرار داد کی طرح اس قرار داد کے حوالے سے بھی کمیٹی بنانے کی تجویز دیتے ہیں ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی آغا سید لیاقت نے کہا کہ چھ مہینے قبل اسی طرح کی ایک قرار داد ہم نے اس ایوان سے پاس کرایا یہ رقم جس کا قرار داد میں ذکر کیا گیا ہے وہ 43ارب روپے ہوگئی ہے مگر اس کی وصولی کے لئے صوبائی حکومت مسلسل چشم پوشی کررہی ہے انہوں نے کہا کہ سندھ ہمارے ساتھ زیادتی کررہا ہے وہ ایک طرف ہمیں اپنے حصے کا پانی نہیں دیتا اور دوسری طرف ہمارے آبی وسائل کے بقایہ جات بھی ادا نہیں کررہا حالانکہ پنجاب نے اس سے اپنے حصے کے پیسے منہا کردیئے ۔اس مد میں ہمارے 50ارب روپے سے زائد کی رقم بنتی ہے جو وصول کئے جائیں 40ارب روپے تو صرف حب ڈیم کی مد میں سندھ کے ذمے واجب الادا ہیں ارسا قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ ایک زیادتی ایف بی آر کے ایک لیٹر کے ذریعے ہمارے ساتھ ہوئی جس کے تحت حب میں قائم کارخانوں کے ٹیکس کراچی میں جمع کرائے گئے اس مد میں سندھ ہم سے ساڑھے7ارب روپے انکم ٹیکس کا لے کر گیا جبکہ اس ٹیکس سے اس نے اپنی آمدن بھی بڑھا کر پیش کی اسی طرح بلوچستان کی حدود سے جو جہاز گزرتے ہین قوانین کے تحت ان کے ٹیکس میں بھی ہمارا حصہ ہے مگر بلوچستان کو اس کا حصہ نہیں ملا۔ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے کہا کہ سابق دور میں اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے اس دور میں تیار ہونے والی رپورٹس نکالی جائیں تو اچھا ہے شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے کینال ایوب خان کے دور میں بنے ہیں جس کے بعد کوئی کام نہیں ہوا واٹر ریکارڈ کے تحت ہمیں اپنا پورا پانی نہیں مل رہا حالانکہ ہمارے پاس صرف ایک نصیرآباد ڈویژن ہے جہاں کینال کانظام ہے اربوں روپے جاری ہونے کے باوجود ہمارے کینالوں کے منصوبے مکمل نہیں ہورہے جبکہ دوسری جانب سندھ ہمیں ہمارا پانی نہیں دے رہا اس حوالے سے ایک آئینی ضمانت کے تحت ہمیں ہمارا پورا حصہ ملنا چاہئے اور اس کے لئے سب سے بہتر فورم مشترکہ مفادات کونسل ہے میر جان محمد جمالی نے کہا کہ یہ ایک اہم قرار داد ہے اس میں کینال سے منسلک علاقوں کے عوامی نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے ایوان کو بتایا کہ مذکورہ معاملہ ہم پہلے ہی مشترکہ مفادات کونسل میں لے کر گئے ہیں گزشتہ میٹنگ میں ہم نے اس حوالے سے سندھ حکومت سے بات کرلی ہے انہوں نے کہا کہ مذکورہ میٹنگ کے بعد بھی میں میں نے قائم علی شاہ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ مصروف تھے اب چیف سیکرٹری سندھ کے چیف سیکرٹری سے بات کرلیں گے جبکہ میں بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے اس حوالے سے بات کروں گا جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کی اگلی میٹنگ میں بھی اس معاملے کو بھرپور طریقے سے اٹھایاجائے گا۔صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کو بین الصوبائی رابطہ کمیٹی اور مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کو سندھ حکومت سے بات کرنے کی بھی ہدایت کی ہے سی سی آئی کے اجلاس میں وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس مسئلے پر وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کریں اگر یہ مسئلہ بات چیت سے حل نہیں ہوتا تو اسے دوبارہ سی سی آئی میں اٹھائیں گے اور حب ڈیم کے حوالے سے بھی سندھ کے ذمے ہمارے پیسے واجب الادا ہیں اس پر بھی بات کریں اراکین کے اظہار خیال کے بعد سپیکر نے اس قرار داد پر بھی وزیراعلیٰ کی قیادت مین تمام پارلیمانی لیڈرز پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی میں قرا داد کے محرکین کو بھی نمائندگی دی جائے جبکہ وزیراعلیٰ اپنی مرضی سے بھی اراکین کا انتخاب کرسکتے ہیں ۔