|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2016

کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ای میل ذریعے نامعلوم مقام سے بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے آرتی ٹیکو سنگھ کو ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’پاکستان مذہبی انتہاپسندی کا مسکن ہے، امن قائم نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلوچ کو بھارت اور دیگر آزادی پسند ممالک سے ہر قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ براہمدغ کو سیاسی پناہ دینے سے بھارت خطے میں ایک مثال قائم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو محض اپنے لوگوں کیلئے آواز اٹھانے پر قتل اور اغواء کا سامنا نہ کرنا پڑے۔کشمیر کی جنگ میں جب بھارتی فوج نے پاکستان کو شکست دی تو جناح نے فورسز کو بلوچستان کی طرف بھیج دیا اور اسی ریاست پر حملہ کر دیا جس کی آزادی کیلئے انہوں نے ایک وکیل کے طور پر وکالت کی تھی۔ اس کے بعد سے ہمارے والدین اور انکے اجداد اور آج ہم اس قبضے کو ختم کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں۔چین کو پاکستان یا پاکستانی پنجابیوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔ انہیں صرف اس چیز سے غرض ہے کہ وہ سی پیک کی سڑک کو اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل بنائے ہرمز کے دہن پر واقع بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے چین کے اندرونی علاقوں تک لے جائے، بلوچ آبادی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جسے بیجنگ جڑ سے اکھاڑدے گا اور اپنے ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ظاہری لبادے کی آڑ میں وہ مزید کھربوں ڈالر کمائے گا۔ ماؤ اور مارکس اپنی قبروں میں کراہ رہے ہونگے۔چین کیلئے ہمای ا ایک انتباہ ہے۔ آپ بلوچ سرزمین پر اسی طرح سے حملہ کر رہے ہیں جس طرح جاپانیوں نے چین پر حملہ کیا تھا اور نانکنگ کو تباہ کیا تھا۔ چین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلوچ چینی سامراج کے آگے دستبردار نہیں ہوں گے خواہ یہ اقتصادی ترقی کے برقعے میں کیوں نہ ہو۔ ایک سوال کے جواب میں بلوچ رہنما نے کہا کہ بلوچستان کے عام لوگوں میں ہمیں مقبول حمایت حاصل ہے اور ہمیں قائم و دائم رہنے کیلئے صرف یہی حمایت حاصل ہے۔ بلوچ قوم اور عوام مالی اور اخلاقی طور پر ہماری حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ہماری تحریک خالصتاً دیسی اور مقامی ہے۔ ہمیں اپنی طاقت محض بندوق کی نلی سے نہیں بلکہ اس سرزمین کی پوری بلوچ آبادی کی طرف سے ہم پر اعتماد کرنے سے ملی ہے۔ بلوچ آبادی کی ایک نمایاں اکثریت ہماری حمایت کررہی ہے اس ظلم و جبر کے باوجود جو ہر اس بلوچ مرد یا عورت پر ڈھایا جارہا ہے جو ’سرمچاروں‘ (آزادی کے سپاہیوں) کیلئے ہمدردی کا اظہار کرے۔اس سوال کے جواب میں کہ آپ بلوچستان میں ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے تو آپ نے پاکستان کیخلاف مسلح جنگ کیوں شروع کردی تو ان کا کہنا تھا کہ شاید میں آرام دہ زندگی گزار کر سکتا ہوں، لیکن یہ ہماری مظلوم بلوچ عوام کی حالت تھی جس نے مجھے ادویات کی پریکٹس کو ترک کرنے اور ایک خود مختار بلوچ ریاست کی خاطر لڑنے کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے پر مجبور کیا۔ ہم بلوچوں کی اپنی ثقافت، زبان، خطہ اور عمومی نفسیات ہے اور ہماری تاریخ کئی ہزار سالوں پر محیط ہے۔ برطانیہ میں ’پاکستان‘ کا لفظ گڑھے جانے سے قبل ہم طویل عرصے سے یہیں موجود تھے اور اس کے کئی عرصے بعد بھی یہیں رہیں گے جب یہ برا خواب اپنے واٹرلو سے جا ملے گا۔دسیوں ہزار بلوچوں نے اس سرزمین کیلئے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے؛ میں تو محض بطور ایک ڈاکٹر کے اپنا سکون اور پریکٹس چھوڑ رہا ہوں۔ اسکا ان سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک سفارتی محاذ کاکھولنے پر بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت پاکستان کیخلاف جوابی کارروائی کرے گی جو کسی بھی طرح کی سفارتی زبان نہیں سمجھتا۔ ہم بلوچوں کو اُڑی واقعے پر تشویش ہے کہ اگر اسکا جواب اسی انداز میں نہیں دیا گیا تو یہ کشمیر میں خونریزی کو اشتعال دینے کیلئے پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا اور بیک وقت وہ بلوچستان میں اپنی نسل کشی کی پالیسی بھی جاری رکھے گا۔ہم بلوچ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ پہلے اقدام کے طور بھارت کو پاکستان پر اپنے تئیں پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا چاہئے اور پھر چین کو یہ بتائیں کہ پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان خود مختار علاقے ہیں اور یہ کہ بیجنگ کو یہاں پر کسی بھی طرح کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو بند کرنا اور باز رہنا چاہئے۔نئی دہلی کا اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی وجہ سے بھارت میں امن قائم نہیں ہوگا۔بھارت کی جانب بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو فنڈز، اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کے سوال پر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ بات قطعاً سچ نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ بھارت ہماری مدد کرتا، لیکن انہوں نے کبھی نہیں کی۔ نئی دہلی نے تو ابھی حال ہی میں ہماری میتوں اور تشدد کا نشانہ بنے لوگوں کی چیخیں سنی ہے۔اور یہ کہ نہ صرف بھارت بلکہ ہمیں امید ہے کہ پوری دنیا ہماری مدد کو آئے گی، چونکہ بلوچ جیسے مظلوم اقوام کی حمایت کرنا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہم کسی بھی ذریعہ سے ملنے والی کسی بھی مدد کا خیر مقدم کریں گے۔ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو عام بلوچوں میں حاصل حمایت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور وہ جو ترقی کے نام پر ہماری ناک تلے ہمارے وسائل لوٹنے کے خواہاں ہیں ہم سب کو اپنے اس مقصد کیلئے متحد کرتا ہے جس میں ہم آزادملک کے طور پر بلوچستان کو دیکھنا چاہے ہیں۔چین کہ جس نے خود اپنی آزادی کی جدوجہد دیکھی ہے صرف بلوچستان کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی خاطر آج پاکستان کی امداد کررہا ہے حتیٰ کہ وہ بلوچ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ان سے گفتگو کی جائے۔چین کو پاکستان سے کوئی محبت نہیں ہے۔ انہیں صرف اس چیز سے غرض ہے کہ وہ سی پیک کی سڑک کو اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز کے دہن پر واقع بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے چین کے اندرونی علاقوں تک لے جائے، بلوچ آبادی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جسے بیجنگ جڑ سے اکھاڑدے گا اور اپنے ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ظاہری لبادے کی آڑ میں وہ مزید کھربوں ڈالر کمائے گا۔ ماؤ اور مارکس اپنی قبروں میں کراہ رہے ہونگے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام سے قبل بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی اور پاکستان نے اپنے قیام کے تقریباً ایک سال بعد بلوچ سرزمین پر قبضہ کر لیا۔