کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ 2013 میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو صوبے کے حالات سوات اور شمالی وزیرستان سے بھی زیادہ خراب تھے، لوگ خوفزدہ تھے جو لوگ استطاعت رکھتے تھے وہ صوبہ چھوڑ کے چلے گئے، جو لوگ مجبوری کے تحت یہاں رہ گئے ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا، نہ ہی گورنر ہاؤس اور نہ ہی وزیراعلیٰ ہاؤس ان کو پوچھتا تھا ہم نے امن و امان بہتر بنا کر لوگوں کو خوف کے بھنور سے نکالا، حکومتی کوششوں سے صوبے میں 90فیصد امن بحال ہو چکا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں ایک روزہ سیکورٹی اینڈ ڈویلپمنٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اسپیکر صوبائی اسمبلی محترمہ راحیلہ حمید خان درانی ، وزیر مملکت میر جام کمال خان ، صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ اور دیگر سول و عسکری حکام نے سیمینار میں شرکت کی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ قیام پاکستان اور بلوچستان کے پاکستان کے الحاق کے بعد سے سازشیں شروع ہو گئیں اور اب تک صوبے میں 4 شورشوں کو ناکام بنایا جا چکا ہے، نیپ کی حکومت کے دوران ماسکو میں صوبے کے خلاف سازشیں تیار کی گئیں،جبکہ یہاں کے محب وطن قبائل اس حوالے سے فکر مند تھے، ہمارے آباؤ اجداد نے فیصلہ کیا کہ ملک اور بلوچستان کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنایا جائیگا ، ان کی کوششوں اور قربانیوں سے سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ جنرل ضیا ء الحق نے حیدر آباد سازش کیس کے اسیران کو رہا کر کے بیرون ملک بھیجا اور وہ بھی وہاں بیٹھ کر بلوچستان کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہے بیرونی سازشوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے آباؤاجداد کبھی بھی کسی سازش کا حصہ نہیں بنے، ہم نے اپنے آباؤ اجداد کی سیاست کو سنبھالا اور اسے آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا جس کے لیے بہت سی قربانیاں دیں اور نقصانات بھی اٹھائے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے، انہوں نے کہا کہ ان کے والد دودا خان زرک زئی، شیخ سعداللہ خان جانان، جام غلام قادر اور تیمور شاہ جوگیزئی جیسے اکابرین ہمارے رہنما ہیں، جنہوں نے بلوچستان کے خلاف ہونے والی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اسے ناکام بنایااورسازشی عناصر کے عزائم خاک میں مل گئے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ دنیا میں دو ملک پاکستان اور اسرائیل مذہب کے نام پر وجود میں آئے ہیں، پاکستان کو شروع دن سے سازشوں اور بحرانوں کا سامنا رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ان سے سرخرو ہو کر نکلے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہر سپر پاور کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اگر آج ایک سپر پاور بھارت کے ساتھ ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، پاکستان کی اہمیت اور منفرد جغرافیائی محل و قوع سے دنیا کی کوئی طاقت انکار نہیں کر سکتی اور یہ اہمیت مسلمہ ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے 2013 میں اقتدار سنبھالتے ہی فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑیں گے اور سیکورٹی فورسز کا مورال بلند کریں گے، ہم فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں جس سے کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں، وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے وسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک کے منصوبے میں بلوچستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا، تمام وسائل عوام کی ملکیت ہیں اور ان پر عوام کا پورا حق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ وسائل صاف و شفاف طریقے سے استعمال ہوں، لوگوں کو بنیادی سہولتیں ملیں ،موٹر ویز بنیں، جو کہ ایک اچھی لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے کابینہ کو اعتماد میں لے کر پی پی ایل سے معاہدہ کیا اور یقین دلاتے ہیں کہ سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں پر معاہدے کرتے وقت عوام اور اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے ، نہ تو کوئی دباؤ قبول کریں گے اور نہ ہی صوبے کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ کریں گے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے سبی کوہلو روڈ بنایا پہلے کسی میں جرات نہیں تھی کہ یہ سڑک بناتا ، انہوں نے کہا کہ لیڈر کا کام ڈرنا نہیں بلکہ جرات مندانہ قیادت کرنا ہوتا ہے، اگر ماضی میں بھی اس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا جاتا تو آج بلوچستان کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہوتا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامرریاض نے کہا کہ بلوچستان میں ایک نمائندہ ، بااختیار اور طاقتور اسمبلی موجود ہے جس میں بلوچ، پشتون نمائندے صوبے کے امور چلا رہے ہیں، بین الاقوامی قوت کے توازن کی تبدیلی کے عمل کے نتیجے میں ہمارا علاقہ گریٹ گیم میں پھنس گیا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اپنے لوگوں کے اتحاد ، قومی یکجہتی اور اپنی قوت کی بناء پر ہم موجودہ بحران سے کامیابی کے ساتھ نکل جائیں گے، انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کوئی مفاد مستقل نہیں ہوتا نہ ہی کوئی لڑائی مستقل ہوتی ہے، پاکستان پر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کے الزام میں کوئی صداقت نہیں، بلوچستان میں ہر شورش کو یہاں کی سیاسی قیادت اور محب وطن عوام نے ناکام بنایا، نواب دودا خان زرکزئی، جام غلام قادر اور دیگر بلوچ پشتون عمائدین نے کبھی ان شورشوں کی حمایت نہیں کی، انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کو شورش قرار دینا درست نہیں کیونکہ بلوچستان کے عوام کے نمائندے خود حکومتی امور چلا رہے ہیں، کمانڈر سدرن کمانڈ نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا مضبوط حصہ اور گریٹ گیم کا اہم کردار اور مرکز ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا خواہاں ہے، جس کی پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے تاہم سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کوششوں کوناکام بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے پاکستان کے ساتھ افغانستان کو بھی فائدہ ہوگا لیکن اس کے لیے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت کو براہمداغ سے پیار نہیں بلکہ وہ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک طاقتور ملک ہے ہمیں کسی کو اپنی قومی آزادی سے کھیلنے کا موقع نہیں دینا چاہیے، ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا اور ان کا مورال بلند کرنا ہوگا، ان پر بے جا تنقید نہیں کی جانی چاہیے، ہم حالت جنگ میں ہیں اور ہمارے آپس کے اختلافات ظاہر ہونے سے دشمن کے حوصلے بلند ہونگے لیکن اگر ہم متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کریں تو ہر سازش ناکام ہوگی۔ کمانڈر سدرن کمانڈ نے کہا کہ موجودہ مشکل حالات میں سب سے زیادہ دباؤ بلوچستان پر ہے، ہمیں جرات ، دانشمندی اور قومی یکجہتی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے، جس کے بعد دشمن ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ سیمینار سے اسپیکر صوبائی اسمبلی محترمہ راحیلہ حمید درانی نے بھی خطاب کیا اور مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا ۔ قبل ازیں سیمینار سے حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ اور ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بھی خطاب کیا اور شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالا ت کے جوابات دیئے۔