کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے انٹر نیشنل نیوزایجنسی ’’رائٹرز ‘‘ کو دیئے گئے اپنے ایک تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے کہ قومی آزادی اور اقوام متحدہ کی موجودگی کے بغیر پاکستان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، ہماری منزل مقصود آزادی ہے ہم بھارت کی جانب سے حمایت چاہتے ہیں لیکن بی ایل ایف کو مودی سرکار یا بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملی ہے’ہم نریندر مودی کی اخلاقی طور پر بلوچ قوم کی حمایت میں دیے گئے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں ہم متمنی ہیں کہ نہ صرف بھارت کو سفارتی اور مالی طور پر بلوچ قومی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہئے بلکہ پوری دنیا کومدد کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم سی پیک منصوبے پر ہر روز حملے کر رہے ہیں کیونکہ اسکا مقصد بلوچ آبادی کو ایک اقلیت میں تبدیل کرنے کا ہے یہ ہمارے وسائل کی لوٹ مار کرکے ہم سے چھین کر لے جارہا ہے۔ تجارتی راہداری کے راستے سے 150,000 افراد کو سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کیلئے راستہ صاف کرنے کی خاطر سیکورٹی فورسز کی جانب سے بے دخل کیا گیا ہے۔بلوچ رہنما نے ایک سوال کے جواب میں بی ایل ایف کی طرف سے شہریوں کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا گروہ ’’غداروں‘‘ کے پیچھے ضرور جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو سب سے بڑا دہشت گرد ملک سمجھتے ہیں اس لئے اس سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی اور’قومی آزادی اور اقوام متحدہ کی موجودگی کے بغیر پاکستان کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے ہماری منزل مقصود آزادی ہے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں آزادی کیلئے لڑنے والے اس اہم باغی گروہ کے رہنما کے بھارت سے مالی اور دیگر مدد کے خیر مقدم بیان کاغالب امکان یہی ہے کہ یہ الفاظ اسلام آباد کیلئے انتباہ ہوں جو نئی دہلی پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ وہاں پر مصائب پیدا کررہا ہے پانچ سال بعد اپنے پہلے ویڈیو انٹرویو میں اللہ نذر بلوچ، بلوچ نسلی گروہ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ، نے چینی اقتصادی راہداری، جس کے کچھ حصے وسائل سے مالا مال صوبے سے گزرتے ہیں پر مزید حملوں کے عزم کا بھی اظہار کیااس 46 ارب ڈالر کی لاگت والے تجارتی راہداری منصوبے کے تحت سڑکوں، ریلوے لائنوں اور توانائی کی پائپ لائنوں کے جال کے ذریعے مغربی چین کو پاکستان کے بحیرہ عرب کیساتھ منسلک کرنے کی توقع کی جارہی ہے ایک ڈاکٹر سے گوریلا رہنماء بنے شخص، جنکی عمر تقریباًپچاس سال ہے،نے رائٹرز کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کے جواب فلمبند کرکے بھیجے ہیں بھارتی مدد کیلئے اﷲ نذر بلوچ کی اپیل ریاستی شبہات کو مزید گہرا کر سکتی ہے کہ وسیع و عریض جنوب مغربی صوبے میں دہائیوں پرانی بغاوت میں اس کا ہاتھ ہے جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہمسایہ ممالک کے درمیان تاریخی طور پر کشیدہ تعلقات اس ماہ کشمیر میں ایک فوجی اڈے پر حملے میں 18 ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بگڑ گئے جس کیلئے نئی دہلی نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے پاکستان نے اس الزام کی تردید کی ہے جمعرات کو بھارت نے کہا کہ اس حملے کے سب سے پہلے براہ راست فوجی ردعمل میں اس نے مشتبہ عسکریت پسندوں پر حملے کیے ہیں۔اس حملے سے قبل پاکستان نے بھارت کے مسلم اکثریتی علاقے والے حصے میں ہونے والے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے دوران غم و غصے کا اظہار کیا تھا، اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر بلوچستان میں مظالم کا الزام لگا کر جواب دیا تھا۔ڈاکٹر اﷲ نذر بلوچ بلوچستان کی آزادی کے لئے لڑنے والے تین اہم مسلح گروہوں میں سے ایک کے رہنما ہیں وہ اپنے روایتی شلوار قمیض میں ملبوس، ایک خودکار رائفل گود میں لیے اور گولیوں سے بھرے میگزین ان کی بیلٹ پر لٹکے ہوئے تھے۔فورسزنے اﷲ نذربلوچ کے انٹرویو پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ اﷲ نذر بلوچ وہ واحد رہنماء ہیں جو جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد رکھنے والے علیحدگی پسند گروہ کیساتھ بلوچستان کے اندر رہتے ہوئے گوریلا جنگ لڑرہے ہیں؛ دیگر دونوں رہنماء یورپ میں جلاوطن ہیں۔سلامتی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے جنگجوؤں کے حملے زیادہ تر صوبے میں کیے جاتے ہیں اور انہوں نے شورش کے خلاف فوجی کارروائیوں کی مار بھی جھیلی ہے۔ تاہم رائٹرز بی ایل ایف کی کارروائیوں کے وسعت کا پیمانہ طے نہیں کر پائی ہے۔پاکستان کو طویل عرصے سے یہ شبہ رہا ہے کہ بھارت بلوچستان میں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔ ان خدشات میں مارچ میں اضافہ ہوا جب پاکستان نے ایک شخص کو گرفتار کیا اور کہا کہ یہ بلوچستان میں را کا ایک جاسوس ہے اور اس پر ’’تخریبی سرگرمیوں‘‘ کا الزام عائد کیا۔ بھارت نے اس کے جاسوس ہونے کی تردید کی تھی۔ایک اور اہم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان ریپبلکن پارٹی کے سوئٹزرلینڈ میں مقیم رہنما براہمدغ بگٹی نے گزشتہ ہفتے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے بھارت میں ’’سیاسی پناہ‘‘ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔بی ایل ایف کے سربراہ اﷲ نذر بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ’’ہزاروں‘‘ جنگجو ہیں بلوچستان تنازعہ پر ملکی میڈیا کی کوریج شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اور غیر ملکی صحافیوں کو وسیع بنیادوں پر صوبے کے دورے سے منع کیا جاتا ہے۔اﷲ نذر بلوچ نے سوالات کے جواب ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں دیے جسے الیکٹرانک ذرائع سے بھیجا گیا تھا۔تاہم ریکارڈنگ کی صحیح تاریخ کی توثیق نہیں ہوسکی، وہ رائٹرز کی جانب سے چھ ہفتے قبل بھیجے گئے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ ان کے جوابات حکومتی دعوؤں کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ انہیں گزشتہ سال مار دیا گیا تھاپاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں چین کی سرمایہ کاری بلوچستان پر پھر سے خصوصی توجہ لایا ہے، جو تانبے اور سونے کے ذخائر سے مالا مال ہے لیکن بڑی حد تک انہیں بروئے کار نہیں لایا گیا ہے۔منصوبے کے تحت سی پیک کی کئی سڑکیں بلوچستان بھر سے بل کھاتی ہوئی گوادر میں اس کے گہرے سمندر کے پورٹ تک پہنچیں گی۔صوبے میں دائمی عدم استحکام، جس کا سامنا اسے 1948ء میں رسمی طور پر پاکستان میں شامل ہونے کے بعد سے بلوچ قوم پرستوں کی طرف سے بغاوت کی لہروں کی شکل میں کرنا پڑا ہے، چین کیلئے باعث تشویش ہے اور اس نے پاکستان سے سیکورٹی کو بہتر بنانے کی اپیل کی ہے۔اﷲ نذر بلوچ، جو کسی نامعلوم مقام سے بول رہے تھے، نے سی پیک کو ایک چینی ’’سامراجی منصوبہ‘‘ قرار دیا اور اس کے ساتھ منسلک سڑکوں، سیکورٹی اہلکاروں اور تعمیری عملے پر حملے کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ سیکورٹی بہتر ہوئی ہے وہ کامیابی کے ثبوت کے طور پر سی پیک کی تازہ پکی کی گئی سڑکوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں بلوچستان کے ناہموار علاقے کے باوجود گردن توڑ رفتار سے تعمیر کیا گیا ہے۔چینی خدشات کو دور کرنے اور کوریڈور کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان 15,000 اہلکاروں پر مشتمل ایک فورس بھی تیار کررہا ہے جو کہ بنیادی طور پرفورسز کے حاضر سروس اہلکاروں پر مشتمل ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ معمول کے مطابق بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ چین پاکستان کی کوششوں کو سراہتا ہے۔گینگ نے کہا کہ ’’ہمیں یقین ہے پاکستان منصوبوں کیخلاف حائل خطرات سے نمنٹنے کیلئے اپنی حفاظتی تبدابیر کو مضبوط بنائے گا اور پاکستان میں چینی اہلکاروں اور منصوبوں کے لئے سیکورٹی کی ضمانت فراہم کرنا جاری رکھے گا۔‘‘ لیکن خطرات موجود ہیں۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن، فورسز کی طرف سے چلائی جانیوالی کمپنی جو کہ خطرناک علاقوں میں سی پیک کی سڑکوں میں سے اکثریت کی تعمیر کررہی ہے، نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران اس کے سی پیک سائٹس پر ہونے والے حملوں میں 44 کارکنوں کو ہلاک اور تقریباً 100 کو زخمی کیا گیا ہے۔اﷲ نذر بلوچ اور دیگر علیحدگی پسندوں کو خدشہ ہے کہ اگر دیگر نسلی گروہوں کے لوگ اس کے قدرتی وسائل کے استحصال پر کام کرنے کیلئے علاقے میں آجائیں تو مقامی بلوچ لوگ، جو ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 190 ملین آبادی میں سے تقریبا 7 ملین ہیں، اپنی آبائی سرزمین پر ایک نسلی اقلیت بن جائیں گے۔