|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2016

پہلے اڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کا ڈرامہ اور بعد میں سرجیکل اسٹرائیک سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ بلکہ دونوں ممالک کو تیسری پاک بھارت جنگ کے قریب تر کردیا ہے۔ اس میں بھارت کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید بھارت پورے خطے میں کشیدگی میں اس لئے اضافہ کرنا چاہتا ہے کہ اس سے پاکستان کے معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو۔ دوسری سب سے بڑی وجہ کشمیر ہے جہاں پر مقامی افراد کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں بھرپور شمولیت کے بعد بھارت زیادہ پریشان ہوگیا ہے اور اس کو اس بات کی ضرورت پڑگئی ہے کہ وہ رائے عامہ کی توجہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی تحریک سے ہٹائے کیونکہ دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ کشمیر کے ہر شہر اور قصبے میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ لوگ پولیس اور بھارتی قابض افواج سے متصادم ہیں 100سے زیادہ نوجوان سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے مارے گئے وہ صرف پتھراؤ کررہے ہیں اور بھارتی افواج اس کے جواب میں گولیاں چلارہی ہیں۔ صرف یہی نہیں گزشتہ 80دنوں سے کشمیر کے ہر ایک مناسب آبادی والے شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ جمعہ کی نماز بلکہ عید کی نماز پر بھی پابندی لگادی گئی اور لوگوں کو گھروں کے اندر محصور کردیا گیا ۔ ان تمام واقعات میں بھارتی حکومت کی دنیا بھر میں سبکی ہوئی ہے اور اس لئے بھارتی حکمران پریشان ہیں جس کی وجہ سے ان کو اس مشکل یا بحران سے نکلنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ نظر آیا کہ وہ اڑی پر دہشت گردی کا ڈرامہ رچائیں اور دنیا کی توجہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی طرف سے ہٹادیں ۔کشمیری مجاہدین اور عوام کے بجائے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائیں کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ حالانکہ اڑی سیکٹر میں حملے کا ڈرامہ خود بھارت نے رچایا تھا اور اس میں مزید اضافہ کرنے کے لیے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کا دوسرا ڈرامہ رچایا۔ حکومت پاکستان ان تمام دعوؤں اور الزامات کو مسترد کردیا ہے اور وفاقی کابینہ نے پاکستان کے فوج کے موقف کی حمایت کی ہے کہ یہ سرجیکل اسٹرائیک نہیں تھا یہ معمول کے مطابق لائن آف کنٹرول پر بھارت افواج کی فائرنگ اور گولہ باری تھی کہ جس میں پاکستان افواج کے دو جوان شہید ہوگئے۔ پوری دنیا میں بھارت کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا ہے خصوصاً نہتے کشمیریوں پر زبردست طاقت کا استعمال ہوا ہے اور 100سے زیادہ نوجوان سڑکوں پر ہلاک کردیئے گئے ہیں اور 12ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہوئے جس سے بھارت کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی اور اس کی جمہوریت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ جمہوری ملک ہوتے ہوئے بھی بھارت کشمیریوں کی سیاسی اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتا اور ان پر بے رحمانہ مظالم ڈھارہا ہے۔ جلسے جلوس پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بہر حال اس معاملے میں بعض ممالک کا رویہ افسوسناک ہے کہ وہ بھارت کی ان وحشیانہ کارروائیوں کی سفارتی سطح پر دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ بعض دوست ممالک نے کشمیریوں کا ساتھ چھوڑدیا اور مختلف بہانے بناکر پاکستان پر الزامات لگارہے ہیں کہ وہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے یا اڑی سیکٹر میں بھارت کے مطابق پاکستانی دہشت گردنے کارروائی کی ہے۔ اس طرح سے بعض دوست اور آزاد ممالک نے بھارت کے موقف کی حمایت کی اور ابھی بھی اس کی حمایت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ طرز عمل افسوسناک ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام نظر آتی ہے اور ہمارا ملک تیزی سے تنہائی کی طرف گامزن ہے جس کے لئے حکومت پاکستان کو ٹھوس کارروائی کرنی چاہئے۔ پہلے ایران کشمیریوں کی آزادی کے لئے پاکستان کے موقف کے قریب تر تھا اور آج کل وہ ہم سے دور جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر دوبارہ غور کرے اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو زیادہ مضبوط بنایا جائے۔