یہ بات اب حقیقت بن چکی ہے کہ موجودہ بحران ملک کا سنگین ترین بحران ہے اور یہ 1971ء کے بحران سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ 1971ء کی جنگ کے دوران افغان اور ایران کی سرحدوں پر قابل اعتماد امن تھا اور وسیع سمندری حدود میں بھی کسی قسم کے خطرات نہیں تھے۔ آج ملک چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے ایران اور افغانستان کے سرحدوں پر بھی غیر یقینی صور ت حال ہے۔ افغانستان نے واضح طور پر بھارت کے ساتھ رہنے کا اعلان کردیا ہے کیونکہ وہ بھارت سے فوجی امداد اور فوجی تعاون کی توقع رکھتا ہے۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ بحر بلوچ میں امریکی بحری بیڑہ کھڑا ہے جس کے تیور خطرناک دکھائی دے رہے ہیں۔ ادھر ملک کے اندر شیخ رشید اور عمران خان جیسے سیاستدان ہیں جو اپنی ناک سے آگے کی سیاست اور حالات کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جبکہ پاکستان اور بھارت جنگ کے لئے صف بندی کررہے ہیں ان حضرات نے سیاست کو ایک مزاق بنایا ہوا ہے۔ البتہ دیگر سیاسی جماعتوں کا رویہ ذمہ دارانہ ہے اور اس نازک موقع پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ وزیراعظم نے پارلیمانی قائدین کا ایک اجلاس طلب کیا ہے جس میں ملکی سطح پر بھارت کے خلاف ایک موقف اپنانے کی کوشش ہوگی۔ مشترکہ موقف کی صورت میں پاکستانی عوام یکجا ہوکر بحران کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ قومی اتحاد کے بعد ملکی دفاع زیادہ آسان ہوجائے گا کیونکہ اس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ حصہ لیں گے اور دنیا پر واضح کریں گے کہ بھارت کے خلاف جنگ میں وہ سب متحد ہیں۔ 1971ء کی جنگ کی سب سے بڑی وجہ ملک میں نااتفاقی تھی خصوصاً پی پی پی اور فوج ایک طرف تھے اور باقی سیاسی جماعتیں الگ تھیں اور سب کے سب اکثریتی پارٹی کو اقتدار سونپنے کے حق میں تھے۔ فوج کے جرنیلوں نے انکار کیا اور بھٹو نے ان کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ حالات پیدا ہوگئے جس سے بھارت نے مکمل فائدہ اٹھایا اور بنگال کو فوجی قوت استعمال کرکے الگ کرلیا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ 1971کے حالات دوبارہ پیدا نہ کئے جائیں۔ ملکی مسائل کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے اور عوام کے تمام طبقات کی حمایت حاصل کی جائے تاکہ بھارتی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کیا جاسکے۔ اختلافات اور اختلاف رائے کی صورت میں ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ شاید بعض حلقے اس بات کی کوشش کریں کہ موجودہ صورت حال میں ملک میں ایک قومی حکومت قائم کی جائے اور وزیراعظم کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس تجویز کو تسلیم کریں اور کوئی متفقہ شخص کو وزیراعظم بنایا جائے۔ بہر حال یہ پارلیمانی رہنماؤں یا سیاسی رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ قومی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں یا وزیراعظم نواز شریف کی رہنمائی میں موجودہ بحران سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ آئندہ چند روز میں یہ واضح طور پرسامنے آئے گا کہ موجودہ بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔ 1971ء کا تجربہ ناکام ہوگیا تھا کیونکہ پاکستان کا وزیراعظم ایک ڈمی انسان تھا اور تمام اختیار بھٹو صاحب کے پاس تھے۔ یہ ان کا فیصلہ تھا کہ پولش قرارداد کو روکا جائے تاکہ بنگال پر بھارت کا قبضہ مکمل ہوجائے جب تک پانی سر سے گزرچکا تھا۔ اس لئے ایک سیاستدان کو وزیراعظم رہنا چاہئے تاکہ دنیا کے ممالک، لوگ اور رہنما ان کی باتیں غور سے سنیں۔ اگر سیاسی جماعتیں متحد ہوں اور وزیراعظم نواز شریف پر اپنے اعتماد کا اظہار کریں تو یہ زیادہ بہتر ہے جس سے بحران کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔