|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2016

کوئٹہ : سپریم کورٹ میں سانحہ سول اسپتال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری بلوچستان ، آئی جی پولیس اورایم ایس سول اسپتال نے اپنی اپنی رپورٹس عدالت میں پیش کر دیں،جس پرعدالت نے سانحہ کو سیکورٹی کی غفلت اور نااہلی قراردیدیا،عدالت نے سول ہسپتال کے ٹراماسینٹر کی عدم فعالیت پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔سپریم کورٹ میں سانحہ سول اسپتال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت منگل کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری،آئی جی پولیس اور ایم ایس سول ہسپتال نے سانحہ سے متعلق رپورٹس پیش کیں تو عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ وہ انکوائری رپورٹ پڑھ کر سنائیں، جسٹس امیر حانی مسلم نے کہا کہ رپورٹ میں واضح لکھا گیا ہے کہ ایم ایس نے تعاون نہیں کیا،رپورٹ کے بعد ایم ایس ابھی تک معطل کیوں نہیں ہوا،وہ جرم کا مرتکب ہوا ہے اسے فوری معطل کرنا چائیے تھا، ایم ایس کو آپ ہٹا رہے ہیں،یا ہم نکالیں؟۔ان کا یہ بھی کہناتھا کہ سول ہسپتال کے سیکورٹی گارڈز کے پاس اسلحہ تک نہیں تھا،ڈاکٹرز کی لسٹ مانگی تھی، ایم ایس نے اپنے پاس کیوں رکھی ہوئی تھی،ہسپتال میں ٹراما سینٹر کے حوالے سے جسٹس امیر حانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ وہ خود ٹراماسینٹر دیکھ کر آئے ہیں، وہاں سوئی تک نہیں،الٹرا ساؤنڈ روم میں 6 کمپیوٹرز تھے،انتظار گاہ میں کرسیاں ہی نہیں تھیں، اس طرح دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ چیف جسٹس جناب انور ظہیر جما لی نے ریمارکس دئیے کہ گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کر ٹراما سینٹر کی فعالی کا حکم دیا تھا،ابھی تک کیوں غیر فعال ہے۔ایک موقع پر عدالت نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ سیکرٹری صحت کیڈرکی پوسٹ ہے تو نان کیڈر کو کیوں لگایاگیا، جس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہم نوٹیفکیشن کی سمری وزیر اعلیٰ کو بھجواتے ہیں، اس پر عدالت کے ریمارکس تھے کہ کیوں نہ ہم آپ کو توہین عدالت کا نوٹس بھجوائیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب ٹراماسینٹر میں سامان ہی تیار نہیں تھا تو افتتاح کی کیا ضرورت تھی۔عدالت کے ریمارکس تھے کہ ٹراما سینٹرتب تک فعال نہیں ہوسکتا جب تک سارا سامان مکمل نہیں ہوتا، اس مد میں اشتہارات پر کتنی لاگت آئی ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ نے اشتہار کی ساری تفصیلات دیں؟؟؟ چیف سیکرٹری بتائیں کہ ٹرام سینٹر کے افتتاح پر کتنا خرچ آیا۔جس پر سیکرٹری صحت نے ٹراماسنٹرکے مکمل بحال نہ ہونے کے باوجود افتتاح کئے جانے پر معذرت کرلی ۔عدالت کے ریمارکس تھے کہ آپ کے پاس صرف ایک میڈیکل سیل ہے جو محض دکھاوا ہے،عدالت نے یہ استفسار بھی کیا کہ چیف سیکرٹری اور پولیس کی رپورٹ میں ڈپٹی کمشنراور ضلعی انتظامیہ کاذکرنہیں،ان کاکیاکردارہے،ڈی سی کہاں تھے۔ کون ہیں اور اس وقت وہ کہاں ہیں؟، ڈی سی،سیکرٹری صحت،کمشنر بتائیں کہ انہوں نے اتنے اشتہارات کیوں لگوائے؟اس دوران عدالت کی طلبی پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ بھی عدالت میں پیش ہوئے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ داود خلجی نے عدالت میں بیا ن دیا کہ مجھے اطلاع ملتے ہی موقع پر پہنچ گیا تھا،میری ذمہ داری ہے کہ کوآرڈینیشن کروں مجسٹریٹ کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کر دی تھی،سیکورٹی کے کام ڈاکٹرز کی دستیابی دیکھنے کی ہدایت کی تھی ،ہسپتال پہنچ کر ایم ایس سے رابطہ کیا اور زخمیوں کی منتقلی کروائی ، کمشنر کوئٹہ کمبر دشتی نے عدالت میں بیا ن دیتے ہو ئے کہا کہ بلال کاسی کی شہادت کی اطلاع ملی تو ڈی آئی جی پولیس اور کمانڈنٹ ایف سی سے رابطہ کیا،سول ہسپتال دھماکے کے بعد 25 منٹ میں دفتر سے دھماکے کے مقام پر پہنچ گیا،سماعت کے دوران عدا لت نے آئی جی پولیس سے استفسا ر کیا میٹل ڈیٹکٹیر لگانا آپکی زمہ داری ہے یا ایم ایس کی؟ آئی جی پولیس نے کہا کہ واک تھرو گیٹس ہمارے پاس دستیاب نہیں ہیں، سول ہسپتال میں اب تک ایک واک تھرو گیٹ نصب کیا گیا ہے،چےئر مین نادرا سے رابطہ کیا فوٹیج حاصل کی چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ سول ہسپتال سانحہ سیکورٹی کی نااہلی ہے جبکہ آئی جی پولیس کی درخواست پر واقعہ کی تفتیش سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دے دی بعد ازاں آئی جی پولیس نے عدا لت کو ان کیمرہ بریفنگ بھی دی۔