|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2016

بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن تھا جب گزشتہ روز4معصوم خواتین کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ ہزاروں سال کی بلوچ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملتی ہو کہ مسلح افراد نے خواتین کے خلاف ہاتھ اٹھایا ہومگر اب یہ کیا کہ خواتین کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ گزشتہ روز کرانی جانے والی مسافر بس کو اسلحہ کے زور پر روک کر دہشت گردوں نے بس میں سوار ہوکر چار خواتین پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور ان کو ہلاک جبکہ ایک خاتون کو شدید زخمی کردیا۔ مسلح دہشت گرد وں نے خواتین کو موقع پر ہلاک کرنے کے بعد موٹر سائیکلوں پر فرار ہوگئے۔ ابھی تک ملزمان کا پتہ نہ چل سکا اور نہ ہی کسی دہشت گرد گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ظاہراً یہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی واردات معلوم ہوتی ہے کیونکہ شیعہ خواتین جن کا تعلق ہزارہ قبائل سے ہے ان کو نشانہ بنایا گیا وہ بھی محرم کے آغاز میں جب حکومت اور سیکورٹی اداروں نے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ سیکورٹی کو مزید بہتر بنایا گیا ہے اور مزید نفری کوئٹہ شہر میں تعینات کی گئی ہے لیکن یہ واقعہ بھی کوئٹہ شہر میں ہوا جو سرکاری دعویٰ کی قلعی کھل کر رکھ دی جہاں نہتے اور معصوم خواتین دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ خواتین پر گولیاں برسانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ حکومت اور سیکورٹی اداروں کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ پتہ لگائیں کہ یہ دہشت گرد کون تھے اور ان کو کون کنٹرول کرتا ہے اور کس کے حکم پر انہوں نے بلوچستان کی ہزاروں سال کے کلچر کو پامال کرکے نہتے اور معصوم خواتین کو صرف اس لئے قتل کیا کہ ان کامسلک الگ ہے۔ حکومت بلوچستان نے بڑے بڑے دعوے کئے اور ان میں یہ دعویٰ سرفہرست ہے کہ بلوچ مزاحمت کو بلوچستان کے طول و عرض میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کچل دیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ چند فرقہ پرست دہشت گرد گزشتہ 3دہائیوں سے دندناتے پھر رہے ہیں، ان کا کوئی نام نہیں لیتا اور نہ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کوئی کاروائی اب تک ہوئی ہے ۔ اب تک ان دہشت گردوں نے ہزاروں معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے، ان کا شاید کوئی ایک آدھ دہشت گرد گرفتار کیا گیا یا مارا گیا ہو البتہ یہ ضرور ہوا کہ ایک ہزار دہشت گرد جیل سے فرار ہوا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف کوئی معقول کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے اس کے برعکس ان پولیس افسران اور سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا اور بعض کو شہید کیا گیا جنہوں نے فرقہ پرست دہشت گردوں کا پیچھا کیا۔ ان میں سے ایک کو مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام پولیس افسران اور سرکاری اہلکاروں کو اس لیے شہید کردیا گیا کیونکہ وہ اصل حقائق معلوم کرچکے تھے یا اس کے بہت زیادہ قریب تھے۔ تاہم یہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے ہر شہری کی حفاظت کرے خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقہ یا مذہب سے کیوں نہ ہو۔ ریاست اور حکومت ان عناصر کی سرپرستی نہ کرے جو دوسرے مسلک اور کمزور طبقات کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس لئے ملک کی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ فرقہ پرستی کا خاتمہ کیا جائے ان تمام لوگوں کو گرفتار کیا جائے جو ان معصوم خواتین کے قتل میں ملوث ہیں بلکہ ان لوگوں کو پہلے گرفتار کیا جائے اور عبرتناک سزا دی جائے جنہوں نے اس قتل عام کا منصوبہ بنایا۔