کوئٹہ: سپر یم کورٹ نے سانحہ کو ئٹہ کی تحقیقات کیلئے سپر یم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیدیا۔ کمیشن ایک ماہ کے اندر سانحہ کے محرکات کاجائزہ لے کر اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے گا۔ سانحہ سول اسپتال کوئٹہ از خود نوٹس کیس کی سماعت سپر یم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس فیصل عر ب پر تین رکنی بنچ نے کی۔عدالت میں وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی، چیف سیکریٹری سیف اللہ چٹھہ،آئی جی پولیس احسن محبوب، صوبائی سیکریٹری داخلہ محمد اکبر حریفال، ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی اور دیگر متعلقہ حکام کے علاوہ وکلا ء تنظیموں کے نمائندے پیش ہوئے۔ وکلاء تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے سپر یم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان ایڈووکیٹ نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کے جوابات پر اپنے اعتراضات جمع کرائے اور عدالت کو بتایا کہ بلوچستان کے وکلاء سانحہ 8 اگست کے حوالے سے اب تک کی جانے والی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں ۔دو ماہ گزرنے کے باوجود تفتیش میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ حامد حان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وکلاء چاہتے ہیں سپر یم کورٹ کے ایک جج کی سر براہی میں ایک رکنی آزاد کمیشن بنایا جائے تاکہ وہ اس سانحہ کے محرکات کا جائزہ لے اور اپنی رپورٹ مر تب کر کے ذمہ داروں کا تعین کر ے ۔اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ یہ سازش کہاں تیار ہوئی اور اس کی تہہ تک جانا ضروری ہے ۔ جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ سپر یم کورٹ کے جج کی سر براہی کے بجائے بلوچستان ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیتے ہیں ۔اس موقع پر حامد خان نے کہا کہ وکلاء صرف سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی بات دیکھ رہے ہیں لیکن کسی بھی قسم کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔پولیس کی جانب سے ان کیمرہ بریفنگ میں تفتیش سے متعلق بتایا گیا۔ معلومات ایسی نہیں ہیں کہ وہ سب کے سامنے بتائی جائیں لیکن اس کیس میں پیشرفت ہوئی ہے جو حوصلہ افزاء ہے۔ بعد میں عدالت نے سپر یم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی سر براہی میں ایک رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ کمیشن 17 اکتوبر سے کام شر وع کر یگا اور ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کر ے گا ۔کمیشن دوسرے اداروں کی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ عدالت نے بلوچستان حکوومت کے ایڈ وکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ سانحہ 8 اگست میں زخمی ہو نے والے تمام افراد کو جلد بلاتفر یق معاوضہ دیا جائے جس پر چیف سیکرٹری حکومت بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ زخمی کو پیسے دینے کیلئے صوبائی حکومت نے منظور ی دے دی ہے اور بہت جلد لوگوں کو معاوضہ مل جائیگا چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ سانحہ میں زخمی ہونے والے تمام افراد کو یکساں رقم ادا کی جائے اور وکلاء اور غیر وکلا ء میں تفر یق نہ کی جائے جس پر چیف سیکرٹری نے عدالت کو یقین دلایا کہ کو ئی تفریق نہیں کی جائیگی،علاوہ ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام سے سچ چھپانے والے قوم کے سامنے بے نقاب ہوں گے۔ سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے بعد بلوچستان ہائیکورٹ کے احاطہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے چیف سیکریٹری اور آئی جی کی رپورٹ کے جواب میں اپنا جواب داخل کیا۔ ہم نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں ان پر اعتماد نہیں ہیں۔ انہوں نے دو ماہ لگادیئے ہیں لیکن تفتیشی میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس لیے وکلاء کو لگتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے انصاف نہیں ملے گا اور سچائی سامنے نہیں آئے گی۔ ججز نے ہمارا مؤقف پوچھا آپ کس طرح مطمئن ہوں گے۔ ہم نے کہا کہ تمام وکلاء تنظیموں کا اتفاق ہے کہ کمیشن آف انکوائری مقرر کردیا جائے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے جج کریں تو ہم اس سے مطمئن ہوں گے اور سچائی حقیقت سامنے آئے گی۔ ہماری اس درخواست پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایک کمیشن آف انکوائری مقرر کیا جائیگا جس کی سربراہی سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کرینگے اور ایک ماہ کے اندر وہ تمام کارروائی مکمل کرکے اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے گی۔ ہم سب اس فیصلے پر مطمئن اور سپریم کورٹ کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے ہماری استدعا مان لی اس طرح ہمیں امید ہے کہ حقائق قوم کے سامنے آئیں گے اور انصاف ہوگا۔ اور جو لوگ کوشش کررہے ہیں کہ اصل ملزمان کی پشت پناہی کی جائے اور قوم سے حقیقت چھپائی جائے وہ قوم کے سامنے بے نقاب ہوجائیں گے۔ حامد خان نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنی کام جاری رکھے گی لیکن تحقیقات میں جو کچھ ہوگا اس کی نگرانی کمیشن کرے گا۔ کمیشن کے اختیارات سے متعلق سوال پر حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دائرہ اختیار وہی ہے جو کمیشن آف انکوائری سے متعلق قانون میں موجود ہے۔ کمیشن کو مکمل اختیارات ہوتے ہیں کہ جس کا جی چاہیے بیان قلمبند کرے اور جس آفیسر کو چاہیے طلب کرے۔ چیف سیکریٹری، آئی جی اور تمام متعلقہ افسران کمیشن کے ماتحت کام کرینگے۔