|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2016

پاکستان اور ایران کے درمیان ایک طویل مدت سے برادرانہ اور اچھی ہمسائیگی کے تعلقات ہیں بلکہ ایران دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو ایک نئی ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا اور اس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کئے۔ پاکستان اور ایران کئی دہائیوں تک فوجی معاملات میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے۔ بھارت کے خلاف دو جنگوں میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا بلکہ 1965کی جنگ سے قبل پاکستان نے رن آف کچھ کے تنازعہ میں ایران کو اپنا ثالث مقرر کیا تھا۔ جو اس بات کاثبوت ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دوستی اور قربت ہے۔ اب تاریخ کے نئے دور میں فوجی معاہدات سے معاشی معاہدات اور تعلقات کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کا تجارتی حجم صرف 5ارب ڈالر ہو جو کوئی مشکل بات نہیں ۔ ایران تیل پیدا کرنے والا دنیا کا ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس کی برآمدات کی آمدنی سالانہ 40ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ برآمدات تیل کی برآمدات سے الگ ہیں اس لئے پاکستان ایران سے زیادہ سستی اشیاء خریدسکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایران اپنا تجارتی ہدف حاصل نہ کرلے۔ بہر حال ایران کو بھی تجارت میں توازن پیدا کرنا ہوگا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایران صرف برآمدات کرے اور پاکستان سے کوئی چیز نہ خریدے یا بین الاقوامی تجارت یک طرفہ ہو۔ ایران کی حکومت کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لیے پاکستان اور خصوصاً پاکستانی بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ یہاں سرمایہ کاری کے اتنے مواقع ہیں کہ ہماری دو طرفہ تجارت 5ارب کے بجائے 10ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ زیادہ بہتر سہولیات سے پاکستان ایران سے زیادہ مقدار میں تیل اور گیس خریدے گا۔ ایران کو اپنی سرحدات کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے پاکستانی بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہئے خوشحال اور ترقی یافتہ بلوچستان ایران اور پاکستان کی استحکام کی ضمانت بن سکتی ہے بلوچستان میں ایران کے لیے وسیع سرمایہ کاری کے مواقع ہیں ان میں ماہی گیری، زراعت، گلہ بانی، صنعت، خصوصاً سیمنٹ کی پیداوار، پاکستان سے خام لوہے کی خریداری تاکہ چاہ بہار میں زیر تعمیر دو اسٹیل ملز کی تمام ضروریات نزدیک ترین خام لوہے کے کانوں سے پوری کی جاسکیں۔ اس طرح ہمارے پاس تانبہ موجود ہے چین سے معاہدے کے خاتمے کے بعد ایران سے معاہدہ ہوسکتا ہے بلکہ ایران سے ہم ریفائنری خریدسکتے ہیں جس سے تانبہ کو سونے سے ملک کے اندر الگ کیا جاسکتا ہے بلکہ ایران اس معاملے میں ہماری مدد کرسکتا ہے اس طرح پاکستان کی حکومت خود ہی ریکوڈک کو چلائے گا اور اس کو کسی بین الاقوامی بین الاقوامی کمپنی کے حوالے نہیں کرے گا تاکہ کھربوں ڈالر مالیت کا سونا اور تانبہ پاکستان کے عوام کی ہی ملکیت رہے۔ اس لئے دو برادر ملکوں کے درمیان تجارت اور معاشی تعلقات کو زیادہ مضبوط بنانا ضروری ہے۔