سعودی عرب نے نجی طور پر تسلیم کیا ہے کہ اس کے اپنے اتحادیوں میں سے ایک کے جہازوں نے صعنا میں جنازے کے اجتماع پر بمباری کی تھی جس میں 140 سے زیادہ افراد مارے گئے۔
دوسری جانب امریکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ یمن میں ممکنہ جنگی جرائم میں اس کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی حمایت کر رہے ہیں۔
سعودی حکام نے صنعا میں ہونے والے فضائی حملے کی تحقیقات کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اس میں ریکارڈنگ کا ڈیٹا، عینی شاہدین کے بیانات اور دستیاب فوجی انٹیلیجنس کا جائزہ لیں گے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ آیا جنگی جہاز کے پائلٹ نے اپنے طور پر بمباری کا فیصلہ کیا تھا یا اس کو اعلیٰ کمانڈ کی جانب سے ایسا کرنے کا حکم دیا دیا گیا تھا۔
ایک سعودی اہلکار کے مطابق عوامی سطح پر اس وقت تک بیان نہیں دیا جائے گا جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی ہیں جس کے طریقۂ کار میں ایک چند دن، چند ہفتے اور کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو حاصل ہونے والی سرکاری دستاویزات کے مطابق امریکی حکومت کے وکلا نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ہو سکتا ہے کہ امریکہ کو شریک جنگ تصور کیا جائے۔
اوباما انتظامیہ نے گذشتہ برس خبردار کیے جانے کے باوجود سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت جاری رکھنے کی منظوری دی تھی۔
اگرچہ سعودی عرب نے ابھی تک سرکاری طور پر یمن میں نمازہ جنازہ کے اجتماع پر فضائی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اس جنگ میں حمایت کا امریکی اصولوں کے تحت دوبارہ جائزہ لے گا۔
امریکہ صدر اوباما نے مارچ 2015 میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کو لوجسٹک اور انٹیلیجنس مدد فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔
روئٹرز کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل ہونے والی مئی 2015 سے فروری 2016 تک کی دستاویزات کے مطابق امریکی حکومت کو یمن میں شہری ہلاکتوں اور امریکی فوجیوں کو درپیش قانونی مسائل پر تشویش ہے۔
فضائی حملے میں پانچ سو کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے
ایک دستاویز میں امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے اکتوبر 2015 کو حقوق انسانی کی تنظیموں کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں اتحادی کی فضائی کارروئیاں بین الاقوامی سطح پر بلاامتیاز نہیں بلکہ یہ سعودی عرب کی عسکری ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہیں۔ سنیچر کو یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک جنازے کے اجتماع پر ہونے والے فضائی حملے میں 140 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ 500 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ سعودی اتحاد نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک جنازے پر فضائی حملے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے تحققات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی اتحاد نے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ وہ امریکی ماہرین کے ساتھ مل کر ‘فوری طور پر اس واقعے کی تحقیقات’ کرے گا۔ تاہم حقوق انسانی کی تنظیموں نے سعودی عرب کی جانب سے تحقیقات کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
فضائی حملے میں پانچ سو کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے
ایک دستاویز میں امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے اکتوبر 2015 کو حقوق انسانی کی تنظیموں کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں اتحادی کی فضائی کارروئیاں بین الاقوامی سطح پر بلاامتیاز نہیں بلکہ یہ سعودی عرب کی عسکری ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہیں۔ سنیچر کو یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک جنازے کے اجتماع پر ہونے والے فضائی حملے میں 140 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ 500 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ سعودی اتحاد نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک جنازے پر فضائی حملے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے تحققات کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی اتحاد نے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ وہ امریکی ماہرین کے ساتھ مل کر ‘فوری طور پر اس واقعے کی تحقیقات’ کرے گا۔ تاہم حقوق انسانی کی تنظیموں نے سعودی عرب کی جانب سے تحقیقات کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔