اسلام آباد: سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے والد کا ایک بار پھر کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف نہیں کریں گے جس نے قندیل کو قتل کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے قانون پاس کیا ہے جس کا مقصد غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بعد معافی حاصل کرکے رہائی کو روکنا ہے۔
پاکستان میں ہر سال ’غیرت‘ کے نام پر سیکڑوں خواتین اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں قتل کردی جاتی ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکن کئی برسوں سے اس بات کا مطالبہ کررہے تھے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور انہوں نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے بل کا خیر مقدم بھی کیا تاہم وکلاء نے اس پر تنقید بھی کیا اور کہا کہ ترامیم ناکافی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے سے بات کرتے ہوئے قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم نے کہا کہ ’ہماری طرف سے کوئی معافی نہیں دی جائے گی اور میرے بیٹے سمیت اس جرم میں ملوث دیگر تین افراد کو جلد از جلد سزا دی جائے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں سزائے موت یا عمر قید ملنی چاہیے تب ہی مجھے خوشی ہوگی۔
وکیل صفدر عباس شاہ قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم کو سہارا دے رہے ہیں—فوٹو / اے ایف پی
وکیل صفدر عباس شاہ قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم کو سہارا دے رہے ہیں—فوٹو / اے ایف پی
محمد عظیم اور ان کی اہلیہ انور بی بی نے کہا کہ انہیں قانون میں تبدیلی کا علم نہیں تھا جو ان کی بیٹی کے قتل کے تین مہینے بعد عمل میں آیا۔
انور بی بی نے کہا کہ قندیل کو قتل کرنے والا ان کا بیٹا یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کے اس اقدام کا انجام کیا ہوگا۔
جولائی میں اپنی بہن قندیل بلوچ کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے وسیم نے کہا تھا کہ اس کی بہن کا رویہ ناقابل برداشت ہوچکا تھا اور اس نے جو کچھ کیا اس پر اسے کوئی شرمندگی نہیں۔
وسیم کی والدہ کا کہنا ہے کہ وسیم یہ سمجھ رہا تھا کہ قتل کے بعد اگر کیس بنا تو اس کے والدین ہی مدعی ہوں گے اور سابقہ قانون کے تحت اگر اس کے والدین اپنی بیٹی کا خون معاف کردیں گے تو وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
انور بی بی نے کہا وسیم کا خیال تھا کہ اسے محض دو یا تین ماہ جیل میں رہنا پڑے گا جس کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا ہائی پروفائل کیس بن جائے گا۔
وکلاء نے اے ایف پی کو بتایا کہ منظور ہونے والے قانون میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے لیے عمر قید کی سزا لازمی قرار دینے کے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس سے کافی کچھ جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
کرمنل لاء پروفیسر عبیرہ اشفاق کہتی ہیں کہ ’یہ غلط فہمی ہونے کا خطرہ موجود ہے کہ اس قانون کو محض ان کیسز میں استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں قاتل کی معافی کے حوالے سے اختلاف رائے ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے قانون سازوں نے غیرت کے نام پر قتل کو واضح طور پر ناقابل مصالحت جرم قرار نہیں دیا انہوں نے محض سزاؤں کو سخت کردیا‘۔
سینیئر وکیل انیس جیلانی کا کہنا ہے کہ ’اگر قانون ساز غیر کے نام پر قتل پر عمر قید کی سزا کو لازمی قرار دینا چاہتے تو انہیں صرف یہ کرنا تھا کہ وہ یہ جملہ قانون میں ڈال دیتے‘۔
عبیرہ اشفاق کہتی ہیں کہ درحقیقت اس طرح کے زیادہ تر کیسز میں معاملہ عدالت تک پہنچنے سے قبل ہی پولیس کی جانب سے نمٹا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں کلچر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا چند ہائی پروفائل کیسز میں سزائیں دینے سے ہوسکتا ہے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کی قتل کی وارداتوں کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کہنے سے اس کے ساتھ مثبت پہلو جڑ جاتا ہے لہٰذا ہمیں اسے ایک منفی اور عورت سے نفرت پر مبنی جرم قرار دینا چاہیے۔