|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2016

گوادر : سورگ دل گراؤنڈ گوادر میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ ہم جب بھی حق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں غدار کا لقب دیا جاتا ہے، سی پیک کا مرکز گوادر ہے لیکن گوادر کے عوام پیاسے ہیں، جیونی کے عوام نے 29 سال پہلے پانی مانگا تو انہیں گولی مار کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا اور خون سے نہلا دیا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک کو بنتے ہوئے ستّر سال ہو گئے لیکن ہماری گیس ہم تک نہ پہنچ سکا ۔ ہم حق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے اور ہمیں آپ کا یہ غداری کا لفظ منظور ہے۔ لیکن آپ کو کیا نام دیا جائے۔ چور ، ڈاکو، غنڈہ یا پھر کچھ اور ۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے ہم سے بہت کچھ لیا ہے لیکن بدلے میں فوج ہر روز چوکیوں پر ہماری خواتین اور بزرگوں کا بے عزتی کر رہا ہے۔ اورماڑہ کنٹونمنٹ بورڈ کے حدود میں اور سوئی کے مقام پر خواتین لکڑیاں چن کر کھانا پکاتے ہیں اور ہمارے گیس کی وجہ سے پنجاب کے بھٹے چل رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گوادر کو سنگاپور و دبئی بننا قبول نہیں اس ترقی کی مخالفت کرتا ہوں جو ہمارے قومی تشخص ، ہمارے قومی پہچان کو خطرہ لاحق ہو اور جس کے صلاح بے روزگاری، بے حیائی ، بھوک اور افلاس ہو ۔ انھوں نے کہا کہ میں آج الیکشن لڑنے یا ووٹ لینے نہیں آیا ہوں بلکہ اسلام آباد کے حکمرانوں کے اس بات کی نفی کرنے آیا ہوں جو کہ گوادر میں آکر مقامی ہوٹل میں بیٹھ کر یا اسلام آباد کے ایئرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر گوادر کے عوام کو سی پیک ترقی کے حامی گردانتے ہیں لیکن آج کے عوامی اجتماع کے اس عجم غفیر نے ثابت کر دیا ہیکہ گوادر کے عوام سی پیک بلوچ دشمن منصوبے کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی تھے لیکن جو ترقی ہم چاہتے ہیں وہ عوام کا ترقی ہوگوادر کا ترقی ہو۔ گوادر میں ماہیگیر کا ترقی ہو۔ یہاں کے لوگ خوشحال زندگی بسر کریں وہ ترقی ہمیں قبول ہے ۔ جس سے یہاں کے مقامی آبادی کو پینے کیلئے صاف پانی ، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات ملیں۔ اور ان کو ترقی برابری کے بنیاد پر شراکت داری دی جائے ۔ انھوں نے کہا کہ گوادر کے باشندوں کیلئے باقاعدہ طور پر قانون سازی کی جائے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جو قانون متحدہ عرب امارات اور خود چین میں رائج ہے کہ کسی بھی ترقی پزیر علاقے کیلئے کسی بھی کام میں وہاں کے مقامی آبادی کو برابر کے حصہ دار بنایا جائے اور وہاں پر وہ سہولتیں دوسرے علاقے سے آنے والے کو نہ ہوں جو کہ وہاں کے مقامی آبادی کو ہو ۔ انھوں نے کہا کہ چائنا کو ہم نے گوادر کے قیمتی اراضیات اور سمندر دی ہے بدلے میں انھوں نے ہمیں چند بستے اور تین بسیں دی ہیں ۔ چائنا کے ساتھ جو بھی معاہدے ہوئے ہیں اس میں ڈھائی سال متوسط طبقے کے وزیراعلیٰ اور موجودہ زہری حکومت برابر کے شریک ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر مالک کو ان معاہدات میں بطور گواہ پیش کیا گیا اب جب ان کی ڈھائی سالہ حکومت چلی گئی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے اور ڈھائی سالہ وکالت اور گواہی کے بعد سی پیک بچانے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ یہ عجیب دوغلی پالیسی ہے ۔ سردار مینگل نے کہا کہ گوادر کی سرزمین کا اصل وارث ڈاکٹر مالک ہے نہ ہی وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نہ ہی حاصل خان اور نہ ہی سردار اختر مینگل ۔ یہاں کے اصل باشندہ یہاں کے ماہیگیر ہیں اور ان ہی کو فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ ترقی کیسی ہونی چاہیے ۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کشمیر کی عشق میں مجنوں کی طرح پاگل ہو گئی ہے جو کے اپنے صوبوں کو سنبھال نہیں سکتا۔ جلسہ عام سے بی این پی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، ایم این اے سید عیسیٰ نوری، ایم پی اے میر حمل کلمتی و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ جو پچھلے ساٹھ سالوں سے جاری ہے وہ یہاں کے عوام کی عزت نفس اور معاش کا ہے ۔ بلوچ عوام کی غربت کا فیصلہ آسمان سے نہیں آیا اور نہ ہی پیغمبروں اور خلفائے راشدین کی دی ہوئی ہے بلکہ اسلام آباد کے حکمرانوں کی غلط روش و پالیسیوں کی وجہ سے ہے بلوچستان ہماری ماں کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ ہمیں روزگار اور معاش دیتی ہے ۔ ہم حق و سچ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہم نے اس ملک کیلئے اپنا سب کچھ دیا ہے لیکن پھر بھی ہمیں پاکستانی تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ انھوں نے کہا کہ تفریق کی حد ہوگئی ہے پنجاب کے پانچ دریا پنجاب کے ہیں لیکن بلوچستان کے سمندر ، سیندک، ریکوڈک اور دیگر قدرتی معادنیات و گوادر پورٹ پاکستان کے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ گوادر میں کوئی ایسی ادارہ قائم نہیں جو کہ یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہنر سکھا سکے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت گوادر کی ضرورت روزگار، پانی ، بجلی ، صحت اور تمام بنیادی ضرورتیں ہیں جو انسانوں کو زندہ رکھنے کیلئے ہوتے ہیں۔ مگر ان کی فقدان ہے ہم اس دن تک چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک ساحل و وسائل بلوچستان حکومت کے حوالے نہیں کئے جاتے جو کے دوسرے صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہیں ہم احتجاج کرتے رہے گے اور اپنا حق مانگتے رہے گے۔ جو ہماری جمہوری حق ہے۔دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کی زیر صدارت میر عبدالغفور کلمتی فارم ہاؤس میں آل پارٹیز کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سکریٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، مرکزی رہنما ڈاکٹر عزیز بلوچ، میر حمل کلمتی ، نیشنل پارٹی کے سی سی ممبر کہدہ علی، محمد حیاتان ، عطاء حیدر، درمحمد اور ریاض احمد، پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی کوآرڈینیشن کمیٹی کے ممبر اعجاز احمد ، یوسف فریادی ، علی اکبر حاجی، افضل جان ، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر مولانا لیاقت بلوچ، اصغر طیب، یونس حسن، جمعیت علمائے اسلام ف کے ضلعی امیر مولانا عبدالحمید انقلابی، درمحمد چیف، جلال میاہ، بی این پی عوامی کے مرکزی ڈپٹی سکریٹری جنرل سعید فیض، آر بی بلوچ، پاکستان مسلم لیگ ن کے ناگمان بلوچ ،چیرمین میونسپل کمیٹی عابد رحیم سہرابی اور وائس چیرمین حاجی مولابخش نے شرکت کی۔اجلاس میں تمام رہنماؤں نے سردار اختر جان مینگل کی گوادر کیلئے مضبوط موقف کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے اور بی این پی کو سربرائی کی دعوت دی۔ اس موقع پر سردار اختر جان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہیکہ گوادر کے بغیر سی پیک اور بلوچستان نامکمل ہیں ۔ جو ترقی کی باتیں ہو رہی ہیں وہ مقامی لوگوں کیلئے نہیں ہیں۔ سی پیک ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ کالا باغ ڈیم ، افغان مہاجرین اور سی پیک کی مغربی روٹ کیلئے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی ، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان مسلم لیگ اور پی ٹی آئی متحد ہو سکتے ہیں تو ہم بلوچ کیوں متحد نہیں ہو سکتے۔ ہم نچلے سطح پر متحد ہو سکتے ہیں لیکن اوپر کی سطح پر ہمارے لیڈر صاحبان متحد ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آپ لوگ اپنی پارٹی قیادت کو سمجھائیں کہ یہ وقت اتحاد و اتفاق کا دور ہے ۔ پانی ہمارے سروں سے گزرنے والا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گوادر کیلئے کون اور کہاں قانون سازی کرے گا ہمارے منتخب اداروں میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔ ہم نے آل پارٹیز اسلام آباد میں یہاں کے مقامی قیادتوں کی پیش کردہ قرار داد پاکستان کے تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے سامنے پیش کر دی۔ لیکن اس قرار داد کو ناکام بنانے کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے فوراً ایک اور آل پارٹیز اجلاس طلب کی جو کہ ہمارے مقصد کیلئے نہیں تھا ۔ ہم نے وہاں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ وزیراعظم پاکستان نے مجھے یقین دلایا کہ وہ حکومتی سطح پر بلوچستان کے مسائل و پیش کئے گئے قرار داد کیلئے ایک اور آل پارٹیز طلب کرے گا۔ لیکن وہ اپنے وعدے سے مکر گئے۔ ہم نے بلوچستان کی دکھ و درد کو اجاگر کرنے کیلئے اسلام آباد میں دانشوروں ، صحافیوں اور وکلاء کی سیمینار منعقد کی تو نیشنل میڈیا کو اس کی کوریج سے منع کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے اپنی وقعت کھو دی ہے وہ اب ایوان سے زیادہ دربار لگ رہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ 1998 میں نواز حکومت نے گوادر پورٹ کا اعلان کیا میں نے اسی وقت اس کی مخالفت کی ۔ میں بلوچوں کا مسئلہ ہر فورم پر اٹھاؤں گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ایک سکشن گوادر میں ڈیموگرافک تبدیلی کے حق میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا کشمیر میں اور چائنا اپنے علاقوں میں مقامی باشندوں کیلئے قانون سازی کر سکتے ہیں تو پاکستان گوادر کے عوام کیلئے کیوں قانون سازی نہیں کر سکتا۔دریں اثناء حب الوطنی، سرزمین و قوم کا جذبہ رکھنے والے لوگ ہماری کاروان میں جوک در جوک شامل ہو رہے ہیں، 1987 میں پانی کیلئے احتجاج کیا گیا اور آج بھی پورے ضلع گوادر کے عوام اپنی پیاس بجھانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں، 23 مارچ اور 14 اگست کو جھنڈا لگانے والوں سے پوچھیں کہ اس جھنڈے نے ہمیں کیا دیا ہے، اس جھنڈے نے صرف ہمارے قبرستانوں کو آباد کیا ہے، ہماری ساحل کے نام پر پنجاب کو ترقی دی جارہی ہے، گوادر میں خضدار کے رہنے والوں کا بھی حق نہیں سمجھتا ہوں تو پر کیسے دوسرے علاقے کے لوگوں کا حق تسلیم کرونگا۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، مرکزی سکریٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، مرکزی رہنما و ایم پی اے میر حمل کلمتی، اکرم حیات ، بابا آدم اور دیگر نے جیونی اور پشکان میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی کی باتیں اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی اور حتیٰ کہ یورپ میں چرچہ ہو رہا ہے لیکن یہاں گوادر میں عملی ترقی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے ۔ حکمران ہماری ماتم پر ڈھول و ناچ کر رہے ہیں۔ گوادر کی ترقی ہماری بربادی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس سرزمین کے مالک ہیں جس کے پاس سات سو کلومیٹر سے زائد طویل ساحلی پٹی ہے ۔ اس سرزمین کے خزانے کھربوں ڈالر میں ہیں۔ ریکوڈک، سوئی، چمالنگ اور گوادر پورٹ جیسے نعمت بلوچوں کے پاس ہوتے ہوئے بھی یہاں کے باسی بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں۔ عید کے خوشیوں میں ہمارے بچوں کو پہننے کیلئے چوتے میسر نہیں ۔ انھوں نے کہا سی پیک کے زریعے ایک یلغار آنے والا ہے یہ یلغار ہماری تشخص کو ملیامیٹ کر کے رکھ دے گا۔ ہم ترقیاتی منصوبوں کے مخالف نہیں بشرطیکہ کہ یہ منصوبے بلوچ قوم کیلئے خوشحالی کا ضامن بنیں تو ہمیں قبول ہیں۔ لیکن یہ ترقی ہماری شناخت کا مسئلہ ہے ہمیں یہ اقلیت میں تبدیل کرنے کی ایک سوچھی سمجھی سازش ہے۔ انھوں نے کہا کہ نادرا رجسٹریشن کیلئے کارکنان اپنا کردار ادا کریں وہ زیادہ سے زیادہ بلوچ عوام کا اندراج کرائیں۔ جس کیلئے اگر کارکنوں کو چندہ اکٹھا کرنا پڑے تو وہ بھی کریں۔ یہ ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔ محمود خان اچکزئی مطالبہ کر رہا ہے کہ اب بلوچستان میں پختونوں کی اکثریت ہے لہذا صوبہ بلوچستان کے سامنے سلیش لگا کر پختون خواہ لکھا جائے۔