گزشتہ دنوں ملک کے ایک موقر انگریزی روزنامہ میں ایک خبر چھپی جس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور بعض عناصر نے اس خبر کو من گھڑت اور جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی اور اخبار نویس بلکہ اخبار کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبات سامنے آئے ۔ اخبار نے اس خبر کی دوبارہ تحقیقات کی اور ایڈیٹر کی جانب سے یہ واضح جواب آیا کہ خبر ہر لحاظ سے درست تھی اور اس میں شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور نہ ہے۔ اس صفائی اور وضاحت کے بعد حکومت کے لئے اخبار نویس کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا لیکن اس کے باوجود حکومت نے رپورٹر کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا اور انکے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کردی جو بالکل ناجائز بات ہے ۔ رپورٹر نے کوئی جرم نہیں کیا، ملکی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی انہوں نے صرف اور صرف اپنی پیشہ و رانہ ذمہ داریاں ادا کی تھیں اس کے بعد ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ آزادی رائے اور پریس کی آزادی پر قدغن لگائی جائے تاکہ اخبار نویس اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں آزادی اور بلا خوف وخطر ادا نہ کرسکیں ۔ بالکل صاف طورپر یہ آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر حملہ ہے اس کارروائی کا کوئی جوا زنہیں کیونکہ اس خبر کے بعد حکومت کا وضاحتی بیان آیا تھا وہ بھی مکمل طورپر چھپ گیا دونوں موقف سامنے آنے کے بعد یہ عوام الناس پر منحصر ہے کہ وہ کس کے موقف کی حمایت کرتے ہیں ۔ اس سے قبل حکومت پر شدید نکتہ چینی جاری تھی کہ اس نے بعض لوگوں کا نام صرف ذاتی اور سیاسی وجوہات کی بناء پر ای سی ایل لسٹ میں ڈال دیا تھا اور ان کے بیرون ملک کے سفر پر پابندیاں عائد کی تھیں وزیر داخلہ نے اپنے آپ کو جمہوری ثابت کرنے کی خاطر یہ اعلان فرما دیا تھا کہ آئندہ کسی بھی فرد کا نام عدالت کے حکم کے بغیر ای سی ایل میں نہیں ڈالا جائے گا ۔ ان کا اعلان واضح طورپر اور شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں چھپا لیکن ڈان اخبار کے رپورٹر کا نام حکومت نے کس عدالت کی اجازت سے ای سی ایل میں ڈال دیا ، آج تک اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ ظاہرہے وزیر داخلہ کے ہی حکم سے حکومت نے یہ کارروائی کی ہے کیونکہ اس سے پہلے کا حکم بھی وزیر داخلہ کا تھا اس کی خلاف ورزی صرف اور صرف وزیر داخلہ نے کرنی تھی اور یہ خلاف ورزی کی گئی۔ اس طرح سے وزارت داخلہ نے آزادی صحافت پر اپنے حملے کا آغاز کردیا اور رپورٹر کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ۔ اب اس کے بعد پوری پریس اور رائے عامہ اس کارروائی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ۔ صحافتی حلقے اور ان کی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی ہے اور اس کا حکم واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور اس عمل کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر حملہ سمجھا جارہا ہے۔ کیونکہ خبر معتبر ہے اور اخبار ان حقائق کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ ہی حکومت کا موقف بھی سامنے آگیا ہے اس کے بعد رپورٹر کو ذہنی دباؤ میں رکھنا اور اس پر اور اخبار پر ناجائز دباؤ ڈالنا اخلاقی گراوٹ ہے اوریہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکومت آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی اس میں قوت برداشت ہے ۔ اس کے خلاف خبریں چھپ جائیں اور وزراء حضرات اس کے راوی ہوں تواس پر سیخ پا ہونا اچھی بات نہیں ہے ۔ پورا پریس اور انسانی حقوق کے ادارے اس بات پر متحد ہیں کہ حکومت اپنا حکم نامہ فوری طورپر واپس لے لے اور اس پر قوم سے معافی بھی مانگے کہ اس نے آزادی صحافت پر حملہ کیا تھا۔ رپورٹر نے اس بات کی پہلے ہی وضاحت کی تھی کہ ان کا ملک سے باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اس کے باوجود حکومتی239 206141ر132129ئع$ نے دعویٰ کیا تھا کہ رپورٹر نے دبئی کے لئے اپنی سیٹ بک کرا لی تھی جس کے بعد ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا جو ایک کہانی معلوم ہوتی ہے اور اس میں صداقت نہیں ہے ۔