پورے ملک میں کم و بیش یہ ایک متفقہ رائے بن رہی ہے کہ فاٹا یا قبائلی علاقوں کو کے پی کے صوبے میں ضم کیاجائے صرف غیر اہم قوتیں جن میں جے یو آئی بھی شامل ہے اس کے خلاف تحفظات رکھتی ہیں آئے دن مولانا فضل الرحمان جلسے کرتے رہتے ہیں اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے رہتے ہیں جس میں وہ دبے الفاظ میں اس بات کی مخالفت کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کو کے پی کے میں ضم کیاجائے۔ کیوں نہ کیا جائے اس کے لئے مولانا صاحب کے پاس کوئی ٹھوس جوا ز نہیں ہے ۔ موجودہ انتظامی ڈھانچے میں قبائلی اپنے تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں وہ تمام حقوق جو مولانا فضل الرحمان یا دیگر کسی پاکستانی کو حاصل ہیں ۔نہ ان کو ووٹ کا حق حاصل ہے نہ ان کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں مناسب نمائندگی ہے ، نہ وہ سیاسی تنظیم بنا سکتے ہیں نہ ان کا قانون سازی میں کوئی کردار ہے۔ مولانا صاحب ان تما م آئینی اور قانونی حقوق سے قبائلی عوام کو کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ ابھی تک مولانا فضل الرحمان نے اس کی مکمل وضاحت نہیں کی۔ جب حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ فاٹا کو مرحلہ وار صوبے کا حصہ بنایا جائے تو اس کو ٹالنے کے لئے مولانا صاحب ریفرنڈم کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ یہ فیصلہ ہر قیمت پر موخر ہوجائے۔ وجہ صاف بظاہر یہ نظر آرہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں ان کا اور ان کی پارٹی کا کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے اتنی بڑی تعداد میں ووٹر ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے موجودہ سیاسی صورت حال زیادہ پیچیدہ ہے اور قبائلی عوام نے موجودہ صورت حال میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی پارٹی کو بالکل نظر انداز کیا ہوا ہے اگر کل کو کے پی کے میں انتخابات ہوتے ہیں تو جے یو آئی کا اثر ورسوخ کم سے کم رہ جائے گا پہلے تو جنرل پرویزمشرف اور ان کے جرنیلوں کی حمایت سے انہوں نے کے پی کے پر حکمرانی کی اور افغانستان کا اور طالبان کے اساتذہ ہونے کا بھر پور فائدہ اٹھایا بلکہ بلوچستان میں تین حکومتوں میں وہ اہم ترین حصہ دار رہے ۔ بلوچستان کے بجٹ کا بڑا حصہ ان کی پارٹی کے قبضہ میں رہا ۔اب صورت حال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے ہوا کا رخ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔ جے یو آئی کے پی کے کی بڑی اسمبلی میں ایک چھوٹی سی پارٹی بن کر رہے گی اورجنوب کے ایک آدھ ضلع میں ا ن کی حکمررانی برقرار رہے گی جس کے بل بوتے پر وہ کے پی کے میں حکمرانی نہیں کر سکیں گے۔ اس لئے مولانا فضل الرحمان اس عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہیں گے ان کی کوشش ہوگی کہ قبائلی عوام اپنے قانونی اور آئینی حقوق سے محروم رہیں کیونکہ یہ تمام حقوق ملنے کے بعد مولانا فضل الرحمان اور ان کی پارٹی کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا اور وہ اپنے طاقتور مرکز میں ایک چھوٹی سی پارٹی بن کر رہ جائیں گے۔ اگر یہ بات ہے تو مولانا صاحب اس کی مخالفت کرتے رہیں گے اور اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے ۔ہمارا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو جلد سے جلد کے پی کے صوبہ کا حصہ بنایا جائے کے پی کے میں حکومت سازی میں ان کا بھر پور حصہ ہو بلکہ ان کو یہ موقع بھی دیاجائے کہ وہاں سے نیا وزیراعلیٰ منتخب ہو اور وہ ملکی استحکام کا ضامن بھی بنے۔ اس فیصلے پر دیر نہیں کرنی چائیے کیونکہ اس عمل سے افغانستان کے ساتھ تعلقات پر ایک خوشگوار اثر پڑنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں اگر وزیراعلیٰ قبائلی علاقوں سے آگیا تو خطہ کی سیاسی صورت حال بدل سکتی ہے اور افغانستان کے طرز عمل میں تبدیلی آسکتی ہے کیونکہ منقسم قبائلی علاقے سے صوبے کا وزیر اعلیٰ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ عوام پاکستان کے اندر رہنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارا یہ بھی مشورہ ہے کہ افغانستان کے جو مفتوحہ علاقے بلوچستان میں زبردستی شامل کیے گئے ہیں ان کو بھی عظیم تر پختون صوبے میں شامل کیاجائے تاکہ وفاق پاکستان میں پختون وحدت زیادہ طاقتور ہو اس طرح تاریخی طورپر تمام بلوچ علاقوں خصوصاً ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد ضلع کے ساتھ تمام علاقوں کو بلوچستان میں شامل کیاجائے ۔