|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2016

خضدار : جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر قومی اسمبلی میں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے پاکستان کا چین کے ساتھ تاریخی دوستی اب اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوگیا ہے ، پاک چین دوستی مثالی ہے اور ہم اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں امریکہ پاکستان کو غلام بنانا چاہتا ہے ہم غلامی کے رشتوں کا انکار اور دوستی کا اقرار کرتے ہیں ، امریکہ بلوچستان سمیت پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر تلا ہوا ہے جمعیت علماء اسلام نے ان خطرات کے ابتدا ہی میں بلو چستانی قوم کو آگاہ کیا تھا جب کہ امریکہ کا بحری بیڑا گوادر سے کچھ فاصلہ پر لنگر اندوز تھا ہم نے واضح کیا تھا کہ امریکہ افغانستان پر قبضہ کرکے پاکستان کے وسائل پر کنڑول حاصل کرنا چاہتا ہے ، جمعیت علماء اسلام نے اس وقت بلوچستان بھر میں امریکہ مردہ باد کے جلسوں کا انعقاد کرکے امریکی بیڑے کو وہاں سے جانے پر پر مجبور کردیا ا من و انصاف وسائل کے منصفانہ تقسیم سے ممالک مستحکم ہوتے ہیں جمعیت علماء اسلام کا واضح موقف ہے کہ جس طرح پنجاپ، سندھ اور خیبر پختون خواہ کے لوگ وہاں وسائل کے مالک ہیں اسی طرح بلوچستان اپنے وسائل کے مالک ہیں ان کے وسائل پربزور بازو کوئی قبضہ نہیں کرسکتا ہے بلوچستانی قوم ایک بہادر قوم ہے جس نے سو سال تک فرنگی کے خلاف جنگ لڑا تھا جس طرح بلوچستانی قوم نے فرنگی کی غلامی کو قبول نہیں کی وہ امریکہ کی غلامی کو قبول بھی نہیں کریں گے نا انصافیوں کی وجہ سے قوموں میں با غیانہ رجحان پیدا ہوتے ہیں بلوچستان کے ساتھ ہر دور میں جمعیت علماء اسلام کا مثالی دوستی رہا ہے بلوچستان کے حقوق کے لئے جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ مؤثر آواز بلند کیا ہے میر ے والد نے بلوچستان کے منتخب حکومت کے خاتمہ پر اپنی حکومت کا قربانی دی ہم عہدو پیمان کے پابند ہیں جمعیت علماء اسلام ایک حادثاتی جماعت نہیں ہے جمعیت علماء اسلام اپنے سیاسی جدو جہد کا سو سال پورا کرنے جارہے ہیں ہمارا منشور کبھی تبدیل نہیں ہوا جبکہ دوسری جماعتیں ہر انتخاب کے موقع پر اپنا منشور تبدیل کرتے ہیں ،بد قسمتی سے ملک کو ایمان داری کی بنیادوں پر چلانے کی کوشش نہیں کیا جارہا ہے بد دیانتی کا ارتکاب کرکے ملک میں نفرتوں کو ہوا دیا ہے جمعیت علماء اسلام قومی لسانی مذہبی تعصبات پر یقین نہیں رکھتا یہاں ایک مخصوص سازش کی بنیاد پر مذہب کو بدنام کیا جارہا ہے کچھ لوگ مذہب کے بنیاد پر بندوق اٹھا کر اپنی نظریہ کو مسلط کرنا چاہتے ہیں جمعیت علماء اسلام نفرت و دوریوں کا خاتمہ کرکے قوم میں وحدت و اخوت کے رشتوں کو مستحکم کرنا چاہتی ہے جمعیت علماء اسلام کی سیاست قومی اور مذہبی تعصبات سے بالا تر ہے ان خیالات کا اظہار مولنا فضل الرحمن نے خضدار میں میر غوث بخش بزنجو اسٹیڈیم میں امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا امن کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈپٹی چیئر مین سینٹ مولانا عبد الغفور حیدری ، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد ، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے نائب امیر ضلع خضدار کے امیر رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین ، جمعیت علماء اسلام پاکستان ڈپٹی سیکرٹری جنرل سابق سابق گورنر بلوچستان فضل آغا ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے امیر شیخ الحدیث مولانا فیض محمد ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے سیکرٹری جنرل ملک سکندر خان ایڈو کیٹ ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے نائب امیر رکن قومی اسمبلی مولانا امیر زمان ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے نائب امیر مولانا غلام قادر قاسمی ، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی راہنما انجینئر محمد عثمان بادینی ، جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا ولی محمد ترابی ، جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء اسلام کے اقلیتی راہنما مکھی شام لال و دیگر مقررین نے خطاب کیا مقررین نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کا ایک مذہبی مضبوط سیاسی قوت ہے ہمارے کانرمیٹنگ دوسرے جماعتوں کے جلسوں سے بڑے ہوتے ہیں جس کی مثال آج کا یہ عظیم الشان جلسہ عام ہے لیکن انتخاب کے موقع پر ہمارے عوامی مینڈیٹ کو چر ایا جاتا ہے ہمارے ووٹ بکس خالی کئے جاتے ہیں آج ہم سو ال کرنے پر مجبور ہیں کہ ملک کی مقتدر قوتیں کب تک عوامی مینڈیٹ کو روکتے رہیں گے اگر اس طرح جمعیت علماء اسلام کے عوامی حق کو تبدیل کردیا تو ملک میں ایک خطرناک رجحان جنم لیگا پاکستان کے ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کا نفاذ چاہتے ہیں حکمران و مقتدر طبقہ کو چاہیئے کہ ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کو قبول کریں گے مقررین نے کہا کہ ایک مضبوط مملکت کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں ملک سے اغواء برائے تاوان قتل و غارت گری اور بد امنی کے واقعات کا تدارک کیا جائے ملک کے بہت سے سیاسی جماعتیں تبدیلی کی بات کرتے ہیں لیکن وہ جب اپنے صفوں میں تبدیلی نہیں لا سکتے ہیں وہ کس طرح ملک کو تبدیل کریں گے مقررین نے کہا کہ کہ قومی پرستی کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ہے اب جمعیت علماء اسلام ہی بلوچستان کا سب سے بڑا سیاسی جماعت بن کر ابھر آزاد بلوچستان بنانے پشتوں بلوچستان بنانے کی باتیں پرانی ہوگئی ہیں مقررین نے کہا کہ بلوچستان امن کا گہوراہ ہے ہمیں ایک مذموم سازش کے تحت بلوچستان خون کی ہولی کھیلی گئی اور بلوچستان کے عوام کوبد امنی کی آگ میں دھکیلاا گیا یہ سر زمین قدرتی دولت سے مالا مال ہے لیکن قوم پر ستوں نے اپنے لوگوں سے جھوٹ بول کر ان کا سودا کیا اگر بلوچستان کے وسائل کی کس نے حفاظت کی ہے اس کا سہرا جمعیت علماء اسلام کو جاتا ہے جے یو آئی کے سربراہ نے وفاقی حکومت کو واضح طور پر بتایا ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے عوام کا آئینی حق ہے مقر رین نے کہ ہم نے ہمیشہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل سیندک ، ریکوڈک سمیت دیگر معدنی ذخائر بلوچ عوام کے ہیں لہذا پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ان حقوق تسلیم کئے جائیں۔ دریں اثناء جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ پانامہ لیکس ایک مصنوعی مسئلہ ہے جس کے ذریعے بعض لوگ سڑکوں کی احتجاج کو فروغ دے رہے ہیں تمام مسائل کے حل کیلئے پارلیمنٹ کافورم موجود ہے ،کرپشن چاروں صوبوں میں ہورہی ہے اورخیبرپشتونخوا اس میں سرفہرست ہے ،مہاجرین کو بلاجواز تنگ کرنے کاسلسلہ ترک کیاجائے جب ایران افغان مہاجرین کی مدت میں توسیع کرسکتی ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا، ان خیالات کااظہارانہوں نے مقامی ہوٹل میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمدسابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی سیدمطیع اللہ آغا،صوبائی جنرل سیکرٹری ملک سمندر ایڈووکیٹ اورسابق گورنربلوچستان سید فضل آغا بھی موجود تھے ،مولانافضل الرحمن نے کہاکہ ملک بھر میں جمعیت علماء اسلام نے جتنے بھی جلسے کئے ہیں کوئی بھی جماعت اس کامقابلہ نہیں کرسکتا آج 15سال بعد خضدار میں جلسہ عام کاانعقاد کیاگیاہے ،جماعت کی مثبت پالیسیوں کے نتیجے میں آج لوگ جوق درجوق جماعت میں شامل ہورہے ہیں جو ہمارے پالیسیوں کا نتیجہ ہے ، پانامہ لیکس ایک مصنوعی مسئلہ ہے جب ملک میں پارلیمنٹ ،آئین اوردیگرادارے موجود ہو تو تمام تر مسائل ان اداروں کے ذریعے حل ہوتے ہیں کوئی بھی مسئلہ سڑکوں پر حل نہیں ہوسکتا ،پانامہ لیکس کا معاملہ عدالتوں میں ہے اس پر مزید سیاسی شعبدہ بازی نہیں ہونی چاہئے۔ملک کے چاروں صوبوں میں کرپشن ہورہی ہے اورخیبر پختونخواہ اس میں سرفہرست ہے انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نواز شریف نے پانامہ میں نام نہ ہونے کے باوجود خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے سب کو چھوڑ کر ایک شخص کے احتساب کی بات سمجھ سے بالاتر ہے صرف اپنے ٹی او آرز منوانا کہاں کا انصاف ہے ؟بتایاجائے کہ تحریک انصاف کس کے ایجنڈے پر حالات کو سبوتاژ کررہاہے ۔ پاکستان ہمسایہ ممالک بالخصوص ایران اورافغانستان کیساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہے ،مہاجرین کے حوالے سے زبردستی انخلاء کی پالیسی قبول نہیں اس وقت پاکستان سے زیادہ ایران میں افغان مہاجرین آباد ہے جبکہ ایران نے مہاجرین کا2021تک ایران میں رہنے کابھی معاہدہ کیاہے اگر ایران مہاجرین کے حوالے سے معاہدہ کرسکتاہے تو پاکستان کیوں نہیں ؟انہوں نے کہاکہ آل پارٹیز کانفرنس نے اقتصادی راہداری مغربی روٹ کی منظوری دیدی ہے اور اس پر اس وقت اعتراض کیوں نہیں کیاگیا ،خیبرپشتونخوا اوربلوچستان کی قیادت اس وقت کیوں خاموش تھی ؟انہوں نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام کی پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس کی اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کے بعد وزیراعظم نے اجلاس بلایا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اورمتعلقہ کمیٹیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے ،انہوں نے کہاکہ کشمیر کے مسئلے پر بھی یہ لوگ خاموش رہے اگر یہ سنجیدہ ہوتے تو آج ملک کی صورتحال اس طرح نہ ہوتی بھارت جارحیت پر اترآیاہے ،انہوں نے کہاکہ اس وقت مسئلہ کشمیر پر بھارت تنہاہوچکا ہے کشمیر کے مسئلے کو حل کئے بغیر اس خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتاافغان مہاجرین کو زبردستی کیوں نکالاجارہاہے دنیا کے تمام ممالک میں انسانی حقوق کے تنظیموں اوراقوام متحدہ کے قوانین موجود ہے اور اس قوانین کے تحت مہاجرین کیساتھ سلوک کیاجائے جمعیت علماء اسلام نے حکومت کومطمئن کیاکہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی وجہ سے بہت بڑی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور اگر یہ سرمایہ کاری باہر منتقل ہوئی تو پاکستانی معیشت پر منفی اثرات پڑینگے ،اگر ایران 2021تک افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں معاہدے کے تحت رہنے کی اجازت دیتاہے تو پاکستان کیوں معاہدہ نہیں کرتے کسی ہمسایہ ملک سے اچھے تعلقات نہ ہونے کاتاثر عام شہریوں پر نہیں ہوناچاہئے ،پاکستان ایک ایسے خطے پر قائم ہے جومشرق اورمغرب کو جوڑ سکتاہے۔انہوں نے کہاکہ تمام ہمسایہ ممالک خاص کر افغانستان اورایران کیساتھ اچھے اوردوستانہ تعلقات ہونے چاہئے دنیا کی کونسی قوتیں جوپاکستان کوہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات خراب کرناچاہتے ہیں ،حالات خراب ہونے سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔