کوئٹہ اور اس کے گردونواح سے مسلسل اطلاعات آرہی ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن رضا کارانہ بنیاد پر واپس افغانستان جارہے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ایک نمائندہ نے کوئٹہ میں کی اور کہا کہ بڑی تعداد میں افغان مہاجرین تیاریوں میں مصروف ہیں کہ وہ تمام مراعات لے کر وطن واپس جائیں بجائے اس کے کہ حکومت ان کو گرفتار کرے اور سرحد کے دوسری طرف دھکیل دے اور ان کی بے عزتی ہو ۔ بعض علاقوں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں رہ سکتے اور ہر حال میں ان کو اپنے وطن واپس جانا ہے اس لئے بہتر ہے کہ وہ عزت و احترام کے ساتھ واپس وطن جائیں اور اپنی گرفتاری اور عدالت سے سزا پائے بغیر چلے جائیں ۔پورے ملک میں واحد سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمان رہ گئے ہیں جو پاکستانیوں سے زیادہ افغان مہاجرین کو فوقیت دے رہے ہیں اور پاکستانیوں خصوصاً اپنے ہی لوگوں کے جائز اور قانونی مفادات کو فراموش کررہے ہیں پاکستان اب مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ۔ ملک کی معاشی صورت حال اس قدر خراب ہے کہ موجودہ حکومت نے ریاستی اثاثے نیلام کردئیے، ریڈیو پاکستان اور موٹر وے کو بھی گروی رکھ دیا ہے تاکہ وہ یہ دعویٰ کر سکیں کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر کو پہنچ گئے ہیں۔ صرف اس دعویٰ کے لئے ملک کی معیشت کو تباہ کیاجارہا ہے ۔ اس پر افغان مہاجرین کا بوجھ جو پاکستانیوں کے دس لاکھ روزگار کے ذرائع پر قابض ہیں ہر طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں ان میں منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ شامل ہیں ۔ بعض مقتدر قوتیں اور اہلکار ان افغانوں کی حمایت کررہے ہیں اور خاص کر ان لوگوں کے لیے جھوٹی شہادتیں پیش کررہے ہیں جو دولت مند ہیں منشیات اور دوسرے غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیں غیر قانونی افغان تارکین وطن نہیں ہیں مگر بلوچستان کے لوگ ان تمام سے بخوبی واقف ہیں یہ اگر ان کے پسندیدہ لوگ ہیں وہ اپنے سفری دستاویزات مکمل کرکے پاکستان واپس آسکتے ہیں مگر وہ ہر حال میں افغان رہیں گے وہ پاکستانی نہیں بن سکیں گے ۔کسی ایک اہلکار سے خوشگوار تعلقات کی بناء پر کوئی افغان راتوں رات پاکستانی نہیں بن سکتا ۔ بہر حال مولانا فضل الرحمان کا طرز عمل حیران کن ہے کہ وہ موجودہ حالات میں بھی حکومت پر ناجائز دباؤ ڈال رہے ہیں کہ افغانوں کو مزید پانچ سال پاکستان میں رہنے دیاجائے۔ بعض آزاد ذرائع کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد پچاس لاکھ سے ساٹھ لاکھ کے درمیان ہے ۔ یہ سب کے سب معاشی مہاجرین ہیں،یہ سیاسی وجوہات کی بنا پر مہاجر نہیں ہیں ۔افغانستان میں ان کے جان و مال کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں یہ صرف اور صرف معاشی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں موجود ہیں بلکہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مزیدافغانی پاکستانی سرحد عبور کرکے آرہے ہیں جس کی شدید ترین مخالفت پاکستان کے سیکورٹی کے ذرائع کررہے ہیں ۔ جو بالکل جائز اور قانونی بات ہے کہ کسی بھی غیر ملکی کو پاکستان کے اندر داخل نہ ہونے دیا جائے افغانستان اگر پسماندہ ہے تو پاکستان اور اس کے عوام اس کے ذمہ دار نہیں ہیں نہ ہی افغانستان میں کرپشن اور جنگی سرداروں کی موجودگی کے ذمہ دار پاکستان کے عوام ہیں۔ اس لئے مولانا فضل الرحمان کا طرز عمل پاکستان کے عوام کے بجائے افغان تارکین وطن کی طرف ہے شاید ان افغان کے واپس جانے کے بعد مولانا فضل الرحمان کے اثرورسوخ اور حمایت میں کمی واقع ہوگی اور ان کی سیاسی اہمیت کم ہونے کے خطرات ہیں ۔بہر حال پورا پاکستان اس بات کی حمایتی ہے کہ ملک سے تمام غیر قانونی تارکین وطن خصوصاً افغان ’ بھارتی ‘ بنگلہ دیشی اور برمی کو ان کے ممالک واپس بھیجا جائے تاکہ پاکستان مہاجرستان نہ کہلائے ۔ یہ بلوچ‘ سندھی‘ پنجابی اور پختونوں کا وطن ہے اگر کشمیری ہمارے ساتھ چلنا چاہیں ہم ان کو بھی خوش آمدید کہیں گے۔ اور اس بات کی بھی حمایت کریں گے کہ سرائیکی لوگوں کو بھی پاکستان کے وفاق کے اندر ایک قوم تسلیم کیاجائے اور ان کو بھی قومی حقوق دئیے جائیں ۔