گزشتہ کئی دنوں سے سیاسی ماحول میں کشیدگی میں اضافہ دیکھاجارہا ہے خصوصاً عمران خان نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ ا س بار حکومت کا تختہ الٹ دیں گے چاہے ملک کو اس کی کتنی بھی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ ادھر وفاقی وزراء اور مسلم لیگ ن کے رہنماء عمران خان اور بلاول بھٹو پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں اور اپنی حکومت کا دفاع کررہے ہیں ۔بلاول بھٹو نے اشاروں میں یہ بات افشاں کردی کہ شیر کے شکار کا ٹھیکہ ایک کھلاڑی کو دیا گیا ہے ۔ بلاول بھٹو کراچی کے ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کررہے تھے اور جگہ جگہ وہ تقریریں کررہے تھے جس میں واضح اشارہ تھاکہ وہ بھی حکومت کے خلاف میدان میں آگئے ہیں بلکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ حکومت کا خاتمہ قریب ہے ۔ اس سے قبل پی پی پی اور اس کی قیادت اس بات کے حق میں کبھی نہیں رہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کسی بھی کوشش کا ساتھ دیا جائے بلکہ ایسے تمام کوششوں کی مخالفت کی گئی اور آئینی اور قانونی حکومت کا دفاع کیا کہ اس کو اپنا قانونی وقت پورا کرنے دیا جائے لیکن حالات میں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ تبدیلیاں آئی ہیں اور حکومت ان کا مقابلہ نہ کر سکی۔ حالیہ اخباری اسکینڈل نے براہ راست حکومت پر انگلی اٹھائی ہے کہ حکومتی افراد اور سرکاری افسران نے سرکاری راز جان بوجھ کر افشاں کردی ہیں جس کی تحقیقات ہورہی ہیں ۔ کور کمانڈر اجلاس میں یہ کہا گیا کہ اس سے دشمن کو فائدہ ہوا اور دشمن کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع مل گیا۔ ابھی تحقیقات جاری ہیں آئندہ ہفتوں اور دنوں میں معلوم ہوجائے گا کہ اصل واقعہ کیا ہے اور اس میں کون لوگ ملوث ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے ۔ بہر حال اس کا فائدہ حزب اختلاف خصوصاً تحریک انصاف اور پی پی پی بھر پور انداز اٹھانے کی کوشش کریں گے تحریک انصاف نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ اس بار نواز لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا جس کے لئے تحریک انصاف طاقت کے بھر پور استعمال کا ارادہ رکھتی ہے ظاہر ہے کہ حکومت کی طرف سے زبردست مزاحمت ہوگی لیکن پی پی پی نے صرف اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے بہت سالوں بعد پی پی پی کو کراچی میں اپنے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی اجازت دی گئی ۔اس سے قبل پی پی پی نے ملیر سے اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست دوبارہ جیت لی اور ملیر کے علاقے پر پی پی پی کا اثر دوبارہ بحال ہوگیا اور متحدہ وہاں سے بے دخل ہوگیا ہے اسی طرح آثار دکھائی دیتے ہیں کہ لیاری اور شہرکے پرانے علاقوں میں بھی پی پی پی کے اثرورسوخ کو بحال کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ بڑے جلسے میں لیاری کے جلوس کو بندوق کی نوک پر روک دیا گیا تھا اور بلاول بھٹو کے جلسے میں لیاری والوں کو شرکت کی اجازت تک نہیں دی گئی ۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ پی پی اور مقتدرہ کے تعلقات خوشگوار اور ن لیگ کی حکومت سے کشیدہ معلوم ہوتے ہیں ۔ اس کی ذمہ دار ن لیگ کی حکومت ہے جو مقتدرہ سے محاذ آرائی میں آئے دن مصروف ہے ۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ اور آئے دن سرحدوں پر فائرنگ سے خطے میں امن کی صورت حال مخدوش نظر آتی ہے ۔ لہذا ملک کے اندر اتحاد کی زیادہ ضرورت ہے جب ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو اندرونی اختلافات ختم کردینے چاہئیں یا کم سے کم وقتی فائدہ اٹھانے کی کوششیں کردی جائیں تو اس سے ملک میں مایوسی پھیلنے کا خطرہ کم رہے گا اگر موجودہ حالات میں عمران خان کا حکومت کے گھیراؤ کا مقصد صرف اور صرف حکومت کی تبدیلی یا اقتدار پر قبضہ ہے تو پاکستان کے عوام کی بد نصیبی ہوگی اور لوگوں میں مایوسی پھیلنے کا خطرہ رہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم بیرونی جارحیت کا پہلے مقابلہ کریں اور بعد میں اپنی ملکی اور قومی سیاسی تنازعات کو حل کریں ۔