|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2016

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ ترین صوبہ ہے صوبے کے طول و عرض میں بنیادی سہولیات نا پید ہیں اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کا امتیازی سلوک اور مقامی انتظامیہ کی عدم دلچسپی ہے ۔ امتیازی سلوک کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بلوچستان کے 29اضلاع سوئی گیس کی سہولت سے محروم ہیں ۔ حکومتی عناصرڈنکا پیٹ بجا رہے ہیں کہ انہوں نے 14دیہاتوں کو گیس فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس پر عنقریب عمل کرنا بھی شروع کردیں گے۔ یعنی 29 اضلاع کے بجائے صرف چودہ دیہاتوں کو قدرتی گیس کی سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔ یہ بات حکومت پاکستان اور اس کے حکمرانوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہونی چائیے کہ بلوچستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر کو قدرتی گیس ساٹھ سالوں میں فراہم نہ کر سکے ۔ ان میں خضدار اور تربت جیسے بڑے بڑے شہر سرفہرست ہیں ۔ اور ابھی تک حکومت کا کوئی منصوبہ یاتجویز بھی سامنے نہیں آئی کہ خضدار اور تربت کے عوام کو بھی سوئی گیس کی سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔ دوسری جانب پنجاب کے ہر شہر اور گاؤں کو بجلی اور گیس کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں ’ سالانہ اربوں روپے اس پر خرچ ہورہے ہیں یہاں تک کہ بھارت کے سرحد کے قریب پاکستان کے آخری شہر نارو وال کو بھی سوئی گیس کی سہولیات دی گئیں ۔ اس کے بعد بھارت کا شہر گورداس پور باقی رہ جاتا ہے کہ اس کو سوئی گیس فراہم نہیں کی گئی ۔ بلوچ قوم پرست یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ سوئی گیس نے پاکستان اور خصوصاً پنجاب کی معیشت کو زبردست طریقے سے فائدہ پہنچایا ۔ اور اب تک 300ارب ڈالر کی مالیت کا گیس گزشتہ ساٹھ سالوں میں معیشت کی ترقی پر خرچ ہوئے ۔ دوسرے الفاظ میں سالانہ پانچ ارب ڈالر کی سوئی گیس نے پاکستان کی معیشت میں حصہ ڈالا ہے ۔ اگر کبھی وہ سوئی گیس کی قیمت طلب کریں گے تو وہ 300ارب ڈالر ہوگا۔ دس ارب روپے سالانہ ۔ اسی طرح بجلی کا عالم یہ ہے کہ بلوچستان جیسے پسماندہ ترین صوبے کی زیادہ سے زیادہ ضروریات 1600 میگا واٹ بجلی ہے ۔ بلوچستان میں کارخانے نہیں ہیں بلکہ کارخانے لگانے پر پابندی ہے یا اس کے لئے بنیادی ڈھانچہ ہی جان بوجھ کر نہیں بنایا گیا تاکہ بلوچستان مستقبل میں بھی پسماندہ ہی رہے ۔ وفاقی حکومت بلوچستان کو چار سو سے لے کر 600میگا واٹ بجلی فراہم کررہی ہے حالانکہ بلوچستان سے 2400میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے اور اضافی بجلی سندھ اور پنجاب کو فراہم کی جارہی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ موجودہ بنیادی ڈھانچہ 600میگا واٹ سے زیادہ لوڈ برداشت نہیں کر سکتی۔ بنیادی ڈھانچہ کی توسیع کا کوئی منصوبہ عوام کے سامنے نہیں آیا مکران کو بجلی ایران سے فراہم ہورہی ہے، ایران میں لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے مگر ہمارے اہلکار صرف عوام کو اذیتیں پہنچانے کے لئے مکران میں بھی 14گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کررہے ہیں حالانکہ بجلی کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں اورصارفین کو یہ بتایا جارہا ہے چونکہ اسلام آباد اور پنجاب میں لوڈشیڈنگ ہے اس لیے ضروری ہے مکران میں بھی لوڈشیڈنگ کی جائے ۔بجلی کے صارفین کو یہ جواب امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر صارفین کو اذیتیں پہنچانا چاہتی ہے، راحتیں نہیں ۔اسی طرح کوئٹہ جیسے شہر میں سریاب اور دیگر کم ترقی یافتہ علاقوں کے لوگ پینے کے پانی کا محتاج ہیں حکومت نے دس سالہ منصوبہ بنایا ہے کہ دریائے سندھ سے پانی کوئٹہ لایاجائے ۔ یہ منصوبہ کب شروع ہوگا اور کب مکمل ہوگا ، کم سے کم عوام الناس اس سے قطعاً واقف نہیں۔