وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے ان انسانی دشمنوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے جو جعلی ادویات تیار کرتے ہیں اور میڈیکل اسٹورز کے مالکان یہ جانتے ہوئے کہ یہ جعلی اور غیر معیاری ادویات ہیں ان کو فروخت کرتے ہیں ۔بلوچستان کے ایک فرض شناس افسر نے تاریخ رقم کردی ا ور جعلی ادویات کی تیاری اور اس کی فروخت کے خلاف مہم شروع کرکے حکومت وقت کو آگاہ کیا کہ صورت حال کتنی زیادہ خراب ہوگئی ہے اور کس قدر جلد سے جلد کارروئی کی ضرورت ہے۔ اس بات کا شدید احساس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے سخت برہمی کااظہار کیا اور اعلیٰ ترین افسران کی سرزنش کی کہ انہوں نے فرض شناس افسر کو صرف اس لئے گھنٹوں میں تبدیل کردیا کہ انہوں نے جعلی ادویات پکڑیں اوران میڈیکل اسٹورز پر چھاپے مارے جہاں سے جعلی اور ممنوعہ ادویات بر آمد ہوئیں، ہزاروں کی تعداد میں جعلی ادویات کی گولیاں قبضہ میں لی گئیں ۔ گزشتہ ایک دہائی یا اس سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ ادویات کا ٹیسٹ لیب بند پڑا ہوا ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اور اس کا واحد مقصد جعلی ادویات کی فروخت کو فروغ دینا بلکہ انسانی جانوں سے کھیلنا ہے ۔ اگر جعلی ادویات فروخت کرنے ہیں تو اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کیا ضرورت ہے ۔ حکومت وہ تمام اسپتال بند کر دے اور ڈاکٹر حضرات اور سرجنوں کی چھٹی کر دے ۔سرکاری اور قومی خزانے سے اربوں روپے صحت عامہ پر کیوں خرچ کرر ہی ہے ۔ یہ تمام اخراجات بے کار ہیں جب اکثر دوائیاں جعلی اور غیر معیاری ہیں اس کو فوری طورپر بند ہونا چائیے ۔ میڈیکل اسٹورز کے مالکان کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں جو جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کرتے ہوئے پکڑا جائے اس کا میڈیکل اسٹور ہمیشہ کے لئے سیل کر دی جائے ،اس کے تمام اثاثے اور جائیدادیں ضبط کی جائیں اور اس کو کم سے کم بیس سال جیل کی سزا دی جانی چائیے ۔ ہم سزائے موت کے خلاف ہیں اس لئے انسانیت کے مجرموں کو عمر بھر جیل میں رہنا چائیے ۔ اسی طرح ان مجرموں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چائیے جو جعلی ‘ نقلی اور غیر معیاری ادویات تیار کررہی ہیں ان میں ادویات فیکٹری کے مالکان کے علاوہ بعض جرائم پیشہ اور جعلی اشیاء تیار کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں ۔
ہم نے وفاقی حکومت کے اس قانون کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت بھی کی تھی جس کے ذریعے جعلی اشیاء تیار کرنے والوں کے خلاف صرف ایف آئی اے کو اختیارات دئیے گئے ہیں اور پولیس کو یہ اختیارات نہیں دئیے گئے اس لیے ایک ایس ایچ او کو جعلی اسپرٹ فیکٹری پر چھاپہ مارنے اور جعلی اسپرٹ برآمد کرنے پر معطل کردیاگیا ہے ،اس قانون میں فوری ترمیم ہونی چائیے اور پورے ملک میں پولیس کے پاس بھی وہی اختیارات ہونے چاہئیں جو ایف آئی اے کو دئیے گئے ہیں۔ ڈرگ مافیا اور جعلی اشیاء تیار کرنے والا مافیا انتہائی مضبوط ہے اور اس کی گرفت وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر بھی ہے کہ جعلی اشیاء کی پکڑ اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار پولیس کو نہیں دیا گیا ہے جو ملک کے چپے چپے میں موجود ہے ۔ اور ایف آئی اے صرف چند سو کی تعداد میں صوبوں میں موجود ہے ۔ ہمارایہ مطالبہ ہے کہ ایف آئی اے کو صوبے میں کام نہ کرنے دیاجائے اور وہ سارا کام پولیس کرے اور وفاق کی ایک ایجنسی کے طورپر کرے ۔ مثال کے طورپر میڈیکل اسٹورز کی تعداد ملک بھر میں لاکھوں میں ہے اور ایف آئی اے ان کی نگرانی نہیں کر سکتی ۔ صرف مقامی پولیس ہی مقامی طورپر عوام کے مفادات کی نگرانی کر سکتی ہے ادویات کے ساتھ ساتھ خوردنی اشیاء خصوصاًکھانے کا تیل اور گھی میں ملاوٹ کے خلاف زبردست مہم چلائی جائے جہاں سے یہ جعلی اشیاء برآمد ہوں، اس کے مالک کو ذمہ در قراردیا جائے اور اس کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ جعلی اشیاء کی پیداوار اورفروخت بند ہوجائے۔ زیادہ منافع حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چائیے ۔