|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2016

وفاقی حکومت اور اسکے چند وزراء صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں اور عمران کی دھمکیوں اور احتجاج سے تنگ آ کر اس کے ساتھ تصادم کی راہ پر گامزن ہیں ۔ان تمام وزراء کی اخبار نویسوں سے بات چیت سے معلوم ہوتاہے کہ حکومت عمران خان اور اسکے اہم ترین ساتھیوں کو جلد گرفتار کرے گی اور تحریک انصاف میں متحرک کارکنوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کے اشارے ہیں بلکہ شاہ محمود قریشی نے اپنے اور اپنے دیگر دوستوں کی گرفتاری کی پیشن گوئی بھی کر لی ہے اور میڈیا کو یہ بتایا ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں پہلے فیصلہ کر لیا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو نومبر 2کی احتجاجی دھرنے سے پہلے گرفتار کیاجائے ۔ادھر حکومت عسکری قیادت کا بھی سامنا کررہی ہے کورکمانڈرز نے جو فیصلے کیے ہیں جنرل راحیل شریف نے اس سے وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے اور یہ مطالبہ کیا ہے کہ قومی سلامتی کے بارے میں اجلاس کی کارروائی کو افشاں کرنے والے کے خلاف جلد اور موثر کارروائی کی جائے۔ اشارے یہ ہیں کہ پرویزرشید صاحب ہی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ملک کے وزیر اطلاعات ہیں اور حکومت کی تشہیر ان ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ کون سے افسران کے خلاف کارروائی ہوگی اس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ۔ البتہ صحافی کو معتبر خبر دینے پر اس کارروائی سے خارج کردیا گیا ہے، ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے اب معاملہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان ہے ۔ اس واقعہ کے بعد وفاقی حکومت اور اس کے پوری ٹیم کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے اور میڈیا ٹیم نے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے کہ انہوں نے ملک کے حساس معاملات پر دنیا بھر میں ایک غیر ضروری اور نقصان دہ بحث چھیڑ دی ہے جس سے ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ آج کل بھارت کے ساتھ کشیدگی اپنے عروج پر ہے سرکاری ذرائع نے یہ تصدیق کی ہے کہ بھارت نے اپنی فوجی قوت میں اضافہ کردیا ہے اور روز بروز بھارت سرحدوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے اور کشیدگی میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ دوسری جانب عمران خان بضد ہیں کہ وزیراعظم پاکستان سے استعفیٰ لیں گے اور بہت جلد لیں گے بلکہ سڑکوں پر احتجاج کر کے لیں گے اگر وزیراعظم استعفیٰ خود نہیں دیں گے تو عمران خان ان کو مجبور کریں گے کہ وہ استعفیٰ دیں، گھر جائیں اوراقتدار کسی کے حوالے کردیں ۔اس سے متعلق عمران خان نے کچھ نہیں بتایا شاید وہ خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ وہ کیسے ؟ یہ کسی کو معلوم نہیں ۔ عمران خان اور اس کے حامی اس سے لا تعلق ہیں کہ ملک کے اندر سیکورٹی کی کیا صورتحال ہے سرحدوں پر خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اس میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ بھارت سے متعلق تو ملکی مبصرین بہتر اندازے لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر افغانستان سے متعلق شاید وہ صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان کو کس حد تک خطرات لاحق ہیں۔ بہر حال بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ سامنے آچکا ہے اور اشارے ہیں کہ افغانستان بھارت کی بھر پور حمایت کرے گا یعنی سیکورٹی کی صورت حال دونوں سرحدوں پر انتہائی خطر ناک ہے اور ہم ابھی تک پانامہ لیکس میں الجھے ہوئے ہیں شاید اس بات کا احساس کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان درخواستوں کی سماعت جلد ہونی چائیے تاکہ ملک افراتفری کا شکار نہ ہو اور قائدین سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ اس لیے وزیراعظم نے وقت ضائع کیے بغیر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ عمران خان بضد ہیں کہ وہ ہر قیمت پر دو نومبر کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ ضرور الٹ دیں گے گو کہ ان کی اپنی درخواست بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہوگی ۔