بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ترقیاتی کاموں کے انچارج اور منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت گوادر میں بندرگاہ کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے بھی منصوبے شروع کر رہی ہے لیکن بعض روایتی عناصر ان لوگوں پر اپنی اجارہ داری کے خاتمے سے خوفزدہ ہو کر منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
گوادر کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوادر کے رہنے والے بندرگاہ کی ترقی کے مقابلے میں شہری علاقوں میں بہتری نہ ہونے سے نالاں ہیں۔ مقامی سماجی کارکن نے کہا کہ گودار کی ترقی کے لیے شارٹ کٹ استعمال کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہاں ترقی لانے کے لیے چھلانگ لگائی جا رہی ہے۔ ذہن کی تعمیر سے پہلے یہاں بلڈنگ تیار کی جا رہی ہیں۔ بندرگاہ بننے سے تکنیکی نوکریاں پیدا ہوں گی لیکن ہمارے بچوں کو بہتر تعلیم نہیں دی جا رہی اور یہاں سے تو کوئی بھی بچہ چینی زبان سیکھنے کے لیے چین نہیں گیا جبکہ پنجاب کے طالب علم زبان سیکھنے کے لیے چین جا رہے ہیں۔’ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ گوادر کے مقامی افراد وہاں ہونے والی ترقی سے بہت خوش اور مطمئن ہیں لیکن بعض مفاد پرست گوادر کی ترقی کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ‘یقیناً وہاں ایسی روایتی قوتیں موجود ہیں جو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر گوادر اقتصادی لحاظ سے ترقی کرتا ہے اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور وہاں خوشحالی آ جاتی ہے تو ان روایتی لوگوں کا وہاں کے رہنے والوں پر سے کنٹرول ختم ہو جائے گا۔’ احسن اقبال نے کہا کہ گوادر کی ترقی کے علاوہ حکومت گوادر شہر اور وہاں رہنے والوں کی ترقی کے لیے بھی بہت سے منصوبے شروع کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر کے مطابق ان میں گوادر یونیورسٹی، پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ،ہسپتال اور کمیونٹی سنٹرز کے علاوہ شہر کو پانی کی فراہمی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ اس سوال پر کہ بندرگاہ پر تو ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہیں جبکہ عوامی فلاح کے منصوبے ابھی صرف کاغذوں تک ہی محدود ہیں، احسن اقبال کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ان میں سے بعض منصوبوں کا فائدہ بھی پہنچنا شروع ہو چکا ہے۔ ‘میں حال ہی میں وہاں سے ہو کر آیا ہوں۔ وہاں گوادر ماڈل ہائی سکول میں کئی سو بچے اور بچیاں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کے لوگ امن کی صورتحال بہتر ہونے سے بھی بہت خوش ہیں۔’ گوادر کے ماہر تعلیم اور سماجی کارکن ناصر رحیم احسن اقبال کی بات سے متفق نہیں ہیں۔ ناصر رحیم نے کہا کہ شہری علاقے میں تعلیم و صحت کی صورتحال غیر انسانی ہیں۔’ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بندرگاہ کی منصوبہ بندی میں مقامی عوام کی رائے نہیں لی گئی اور ‘اگر مقامی افراد کو منصوبہ بندی میں شامل کیا جاتا تو گوادر کی بندرگاہ اس مقام پر تعمیر نہیں ہوتی۔’ انھوں نے کہا کہ ‘گوادر کے لوگوں کا سب سے اہم روزگار ماہی گیری ہے اور یہاں فشنگ گراؤنڈ پر یہ بینر آویزاں ہے کہ فشنگ کرنا ممنوع ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ پورٹ بھی بنے اور وہ بھی باعزت طریقے سے زندگی گزارتے رہیں۔ راستے بند کر دیے سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ ماہی گیروں کو گھنٹوں پیدل چل کر آنا پڑتا ہے۔’ گوادر میں رہنے والے ماہی گیروں کے روزگارکو نئی بندرگاہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے لاحق خطرات کے بارے میں احسن اقبال نے کہا کہ گوادر کے ماہی گیروں کے لیے بھی نئی بندرگار میں نئے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ‘مقامی ماہی گیروں کے لیے الگ سے بندرگاہ یعنی فشنگ پورٹ بن رہی ہے جس میں ان کے شکار کو زیادہ دیر تک محفوظ اور ذخیرہ کرنے کی سہولت ہو گی تاکہ وہ اس کی اچھی قیمت وصول کر سکیں۔’اس فشنگ پورٹ سمیت گوادر کے شہریوں کے لیے بعض دیگر منصوبوں کو شروع کرنے میں تاخیر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ گوادر شہر میں ترقیاتی کاموں کے لیے بنیادی کام کیا جا رہا ہے۔ ‘وہاں پانی تھا نہ بجلی اور نہ سڑکیں۔ اب ان سہولتوں کی دستیابی کے بعد جو باقی انفراسٹرکچر ہے اس کی تیاری میں وقت لگے گا۔’ احسن اقبال نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ گوادر کے مقامی نوجوانوں کو ترقیاتی منصوبوں میں ملازمتوں کے مواقع دینے کا بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گوادر میں یونیورسٹی اور فنی تعلیمی ادارے اسی لیے بنائے گئے ہیں تاکہ وہاں کے لوگ ملازمتوں کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔ ناصر رحیم اس بات سے متفق ہیں کہ تجارتی راہداری کا منصوبہ بہت زیادہ مواقع لے کر آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہم اس بات پر پریشان ہیں کہ اہل گوادر ان مواقع سے کتنا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم سیاسی طور پر بھی کافی پسماندہ ہیں اس لیے خدشہ ہے کہ اگر ہمارے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر سنا نہ گیا تو پھر ہم ترقی سے کافی دور رہ جائیں گے۔’