بلوچستان وسائل سے مالا مال مگر ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لا محدود مواقع موجود ہیں بلوچستان میں سرمایہ کاری کیوں نہیں ہورہی ہے یہ ایک اہم ترین سوال ہے جو بلوچستان کا ایک عام باشندہ حکومت وقت سے کرتا آرہا ہے ۔ حالیہ سالوں میں کئی وزرائے اعلیٰ نے یہی بات بار بار دہرائی کہ وہ بلوچستان میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہتے ہیں، ان سرمایہ کاروں کو تمام سہولیات کے ساتھ ساتھ ان کی دولت ‘ ان کے سرمایہ اور ان کے جان و مال کی حفاظت کی یقین دہانی کراتے ہیں مگر ایک بھی سرمایہ کار بلوچستان نہیں آیا ۔ البتہ بلوچستان کے ایک پارسی چیف سیکرٹری مسٹر پونیگر کی منصوبہ بندی کی وجہ سے حب ’ وندر اور اوتھل میں صنعتی علاقے قائم کیے گئے جو بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ کراچی کے صنعتی علاقے سے قربت تھی ۔ کراچی کا اپنا صنعتی علاقہ شہر سے پچاس میل دور تھا جبکہ حب میں بلوچستان کا صنعتی علاقہ صرف چھ میل کے فاصلے یا آئی آئی چندریگر روڈ سے بارہ میل کے فاصلے پر تھا ۔ ساتھ ہی صنعتوں کو زبردست مراعات بھی دی گئیںیعنی ٹیکس سے چھوٹ اور کسٹم ڈیوٹی سے معافی ۔ اس وجہ سے حب اور اس کے گردونواح میں سینکڑوں کا رخانے قائم ہوئے مگر چند سالوں بعد خصوصاً 1983ء کے ایم آر ڈی تحریک کے بعد حکومت کے رویے میں انقلابی تبدیلی آئی کیونکہ اس تحریک نے حکمرانوں کو خوفزدہ کردیا اور مستقبل میں دوبارہ اس قسم کی تحریک کو ابھرنے سے روکنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ترقی کی رفتار کو پنجاب میں ہر قیمت پر تیز تر کیاجائے جس کے لئے نواز شریف جیسا تاجر اور صنعت کار رہنما چنا گیا او رپور ے ملک کی سرمایہ کاری پنجاب صوبہ خصوصاً وسطی پنجاب کی طرف منتقل کی گئی ۔راتوں رات حب اور بلوچستان کے قرب و جوار علاقوں میں سینکڑوں کارخانے بند ہوئے جب وفاقی حکومت نے حب اور ملحقہ علاقوں میں ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات اچانک واپس لے لیں اس طرح سے بلوچستان سے سرمایہ کاروں کا زبردست طریقے سے انخلاء شروع کیا گیا۔ سرمایہ کاری اور ریاستی اخراجات کا رخ پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا۔ حالیہ سالوں میں پنجاب کا اپنا ترقیاتی بجٹ 500ارب روپے سے زیادہ کا رہا ہے اور اس سے دگنی رقم وفاقی حکومت فراہم کررہی ہے اس طرح پنجاب دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہاہے جو بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ اس سے پنجاب کی آبادی کا رخ دوسرے اور کمزور صوبوں کی طرف نہیں ہوگا اور نہ ہی پنجابی بڑی تعداد میں مغربی ممالک جائیں گے ۔پنجاب کی ترقی ایک خوش آئند بات ہے مگر یہ ملک کے لئے اچھا نہیں ہے کیونکہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آدھا ملک پسماندہ ہو اور لوگ ملازمتیں چھوڑیں ،پینے کا پانی نہ ملے اور ملک کا دوسرا حصہ ترقی یافتہ اور ترقی کی منزلیں طے کر تا جائے ۔ جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت اس میں بھی بلوچستان والی معاشی صورت حال تھی نجی اور غیر ملکی سرمایہ کاری نا پید تھی البتہ چند ایک مسلمان سرمایہ کار بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اور انہوں نے سرمایہ کاری کی ’ بنک قائم کیے ’ ہوائی سفر کے لئے کمپنی بنائی اور بڑی تعداد میں صنعتیں لگائیں ۔وہ سرمایہ کار ارب پتی ستر سال قبل تھے اور اب ان سب کا نام و نشان غائب ہے۔ بلوچستان میں تو کوئی ارب پتی نہیں ہے سوائے ڈرگ مافیا کے لوگوں کے اور سندھ میں چند ایک بچ گئے اکثر دوسرے ملکوں میں چلے گئے کیونکہ انکا ملکی معاملات میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا ۔ مگر اب ہزاروں کی تعداد میں ارب پتی لاہور اور اس کے گردو نواح میں ہیں ان کا ریاستی معاملات میں زبردست عمل دخل ہے بلکہ اکثر لوگ ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کرکے ارب پتی بنے ہیں ۔ بلوچستان میں یہ نہیں ہوسکتا تھا اس لئے مقامی طورپر وزراء اور ایم پی ا ے حضرات کو کروڑوں روپے کے فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں تاکہ ملک کے اندر ایک ’’توازن‘‘ برقرار رہے کہ کرپٹ لوگ پورے پاکستان میں ہیں صرف پنجاب کی اس پر اجارہ داری نہیں ہے۔ اتنے ہی کرپٹ لوگ سندھ ’ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی ملیں گے اس لئے سرکاری لوگوں کی کرپشن پر پردہ داری کچھ ضرورت سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں انہی ایم پی اے حضرات کی رقم سے حکومت سرمایہ کاری کرے، کارخانے لگائے، ماہی گیری ’ زراعت ’ گلہ بانی اور معدنیات میں سرمایہ کاری کرے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہو اور ترقی کا عمل جاری رہے ۔