اسلام آباد : چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں پلی بارگینگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی جس میں سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے قانون کے استعمال سے روک دیا ، عدالت نے وفاق سمیت چاروں صوبوں سے دس سالوں میں کی گئی۔ رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے حوالے سے تفصیلات طلب کر لیں ۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ نیب ملزمان سے قسطوں میں رقم کی رضاکارانہ رقم کا کہہ کر بری کر دیتا ہے ۔ رقم کی واپسی کا قانون بنانے والوں کو شرم نہیں آئی ۔ دوسرے ممالک کے لوگ ایسے قوانین پر ہنستے ہیں انہوں نے کہا کہ دو کروڑ روپے کرپشن کرنے والوں کو دو لاکھ روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رضاکارانہ رقوم کی واپسی کرنے والوں میں ایم این ایز ، ایم پی ایز اور اعلی شخصیات شامل ہیں ۔ نیب کرپٹ عناصر سے رضاکارانہ رقوم واپس لے کر انہیں دوبارہ نوکریوں پر بحال کر دیتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پلی بارگینگ قانون سے ملک میں کرپشن میں کہیں گنا اضافہ ہو گیا ہے نیب والوں کو پلی بارگینگ کر کے ایوارڈ ملتے ہیں یا ان کو اس سے رقم سے 20 فیصد ملتا ہے ۔نیب ملزمان سے مک مکا کر لیتا ہے حکومت پلی بارگینگ میں خود ملوث ہے ۔ یہ قانون کرپشن میں اضافے کے لئے بنایا گیا ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب والے جب مرضی ہو قانون میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ نیب بازار میں کھڑے ہو کر آواز لگاتا ہے کہ کرپشن والو آؤ پلی بارگینگ کر لو ۔ نیب ملزمان کو چھٹی لکھ کر پلی بارگینگ کی درخواست کرتا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے نیب این آر او کر رہی ہے ۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ رضاکارانہ رقوم کی واپسی میں قانون میں تبدیلی لا رہے ہیں ۔عدالت نے نیب کو رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے قانون 25A کے استعمال سے روک دیا ۔ عدالت نے کہا کہ چیئرمین نیب رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے قانون کا استعمال نہ کریں ۔ عدالت نے اس کیس کی سماعت 7 نومبر تک کے لئے ملتوی کر دی،دریں اثناء چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں پلی بارگینگ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی جس میں سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے قانون کے استعمال سے روک دیا ، عدالت نے وفاق سمیت چاروں صوبوں سے دس سالوں میں کی گئی۔ رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے حوالے سے تفصیلات طلب کر لیں ۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ نیب ملزمان سے قسطوں میں رقم کی رضاکارانہ رقم کا کہہ کر بری کر دیتا ہے ۔ رقم کی واپسی کا قانون بنانے والوں کو شرم نہیں آئی ۔ دوسرے ممالک کے لوگ ایسے قوانین پر ہنستے ہیں انہوں نے کہا کہ دو کروڑ روپے کرپشن کرنے والوں کو دو لاکھ روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رضاکارانہ رقوم کی واپسی کرنے والوں میں ایم این ایز ، ایم پی ایز اور اعلی شخصیات شامل ہیں ۔ نیب کرپٹ عناصر سے رضاکارانہ رقوم واپس لے کر انہیں دوبارہ نوکریوں پر بحال کر دیتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پلی بارگینگ قانون سے ملک میں کرپشن میں کہیں گنا اضافہ ہو گیا ہے نیب والوں کو پلی بارگینگ کر کے ایوارڈ ملتے ہیں یا ان کو اس سے رقم سے 20 فیصد ملتا ہے ۔نیب ملزمان سے مک مکا کر لیتا ہے حکومت پلی بارگینگ میں خود ملوث ہے ۔ یہ قانون کرپشن میں اضافے کے لئے بنایا گیا ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب والے جب مرضی ہو قانون میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ نیب بازار میں کھڑے ہو کر آواز لگاتا ہے کہ کرپشن والو آؤ پلی بارگینگ کر لو ۔ نیب ملزمان کو چھٹی لکھ کر پلی بارگینگ کی درخواست کرتا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے نیب این آر او کر رہی ہے ۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو بتایا کہ رضاکارانہ رقوم کی واپسی میں قانون میں تبدیلی لا رہے ہیں ۔عدالت نے نیب کو رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے قانون 25A کے استعمال سے روک دیا ۔ عدالت نے کہا کہ چیئرمین نیب رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے قانون کا استعمال نہ کریں ۔ عدالت نے اس کیس کی سماعت 7 نومبر تک کے لئے ملتوی کر دی