|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2016

کوئٹہ : پولیس ٹریننگ سینٹر پرحملہ کیسے ہوا، دہشتگرد کس زبان میں بات کررہے تھے، ان کی تعداد کتنی تھی اوردھماکے کہاں ہوئے۔ واقعے کی پوری کہانی کیڈٹس نے اپنی زبانی سنادی۔ کیڈٹس کے مطابق حملہ آور فارسی زبان میں بات کر رہے تھے۔ یہ انکشاف بھی کیا کہ160 تربیتی مرکز سے فارغ ہوئے آٹھ ماہ گزر چکے تھے مگریہ علم نہیں کہ ہمیں واپس کیوں بلوایا گیا۔واقعے کے عینی شاہد کیڈٹ حمزہ160نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم کھانا کھانے کے بعد سو رہے تھے۔ رات دس سوا دس کا ٹائم تھا جب ہمیں اندھا دھند فائرنگ کی آوازیں آئیں، ہم فورا چارپائیوں کے نیچے چھپ گئے پھر ہمیں خیال آیا کہ ہاسٹل کا دروازہ بند نہ کیا تو یہ ہمیں بھی ماردیں گے۔160 ہم نے صندوق اور چارپائیاں رکھ کر دروازہ بند کیا، کچھ دیربعد160 دو یاتین بندے آئے جنہوں نے دروازے کو لاتیں ماریں ، دروازہ نہ کھلنے پرآپس میں بحث کی ، اسلحہ تبدیل کیا اور چلے گئے۔حمزہ کے مطابق ہمارے بالکل سامنے160 تین نمبر بیرک تھی، دہشتگردوں نے وہاں اندھا دھند فائرنگ کی پھر ایک بلاسٹ ہوا، اس بیرک میں کم از کم سو افراد تھے جن میں سے بہت سارے شہید ہوگئے۔ پھرایف سی اور آرمی والے وہاں پہنچے تو ہماری ہمت بندھی۔ ایک دہشتگرد کوجو بیرک میں چھپ کر فائرنگ کر رہا تھا ، ایف سی اہلکار نے پکڑا تو اس نے خود کو اڑا لیا۔حمزہ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ہماری ٹریننگ ختم ہوئے آٹھ ماہ گزر چکے تھے مگر علم نہیں کہ ہمیں واپس یہاں کیوں بلایا گیا۔160 ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ اگر اسلحہ ہوتا تو ہم بھرپورمقابلہ کرتے، مگر ہم کھانا کھا کر سو رہے تھے۔160 یہاں سیکیورٹی کے بھرپور انتظامات نہیں ہیں۔ پاسنگ آؤٹ پریڈ میں وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری سے مطالبہ کرنے پر انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ یہاں کنکریٹ کی دیواریں بنائیں گے۔ایک اور کیڈٹ سراج نے بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد آٹھ سے بارہ تھی۔ کیڈٹ یونس کے مطابق حملے کے فوراً بعد ہم چارپائی کے نیچے چھپ گئے تھے۔ حملہ آوروں کو بات کرتے سنا تھا، وہ آپس میں فارسی زبان میں بات کررہے تھے۔