|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر مولاناعبدالواسع اورڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کیخلاف بلوچستان اسمبلی کے ریکوزیشن اجلاس بلانے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کے ذمہ دارصوبائی حکومت ہیں ،ہم اس کیخلاف عدالت سے رجوع اور احتجاج کرینگے ،’’را‘‘پر الزامات لگانے والوں نے کیوں حفاظتی انتظامات نہیں کئے ،شہداء کے میتوں کو کرایے کے ویگنوں میں گھروں کو بھیجنا حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے، حکومت اور قوم پرستوں کو ان واقعات پر ناکامی قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوناچاہئے ،ان خیالات کااظہار انہوں نے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی اوراپوزیشن اراکین اسمبلی کے ہمراہ اپوزیشن چیمبر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولاناعبدالواسع نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس سے تو موجودہ صوبائی حکومت کی نااہلی صاف اورواضح ہوگئی جب ایک تقریب میں آئی جی پولیس نے وزیراعلیٰ سے ٹریننگ کالج کی دیواریں تعمیر کرانے کا مطالبہ کیا ،وزیراعلیٰ نے اس کااعلان بھی کیا مگر اس کے باوجود دیواروں کی تعمیر نا ہونا نااہلی نہیں تو اورکیا ہے ؟دیواروں کی خستہ حالی کی بات کرکے ایک طرف تو واضح نشاندہی کی گئی کالج کے کمزور پوزیشن کیا اور کہاں ہے ؟اس واقعہ میں نہ ’’را‘‘ اورنہ ہی ’’این ڈی ایس ‘‘کا کردار ہے بلکہ اس کے براہ راست ذمہ دار موجودہ صوبائی حکومت ہے ،اگر ’’را‘‘نے کوئی کارروائی کی بھی ہے تو حکومت نے اس کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں ،کیا حکومت ’’را کی سازش روکنے کیلئے ایک دیوار تعمیر نہیں کرسکتی ،انہوں نے کہاکہ جب پولیس کیڈٹس چھٹیوں پر گئے تھے تو انہیں کس لئے بلایاگیا ؟کیا اس حوالے سے کوئی آرڈر بھی جاری ہوا تھا؟ہم اس کی مکمل تفصیلات حاصل کرکے حکومت ودوسرے ذمہ داروں کیخلاف عدالت میں جائینگے ،اس سلسلے میں ہم اپنے وکلاء سے صلاح ومشورہ کررہے ہیں ،حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ پولیس کیڈٹس کی شہداء اور زخمیوں کیلئے معاوضے کے اعلان کی بجائے حکومت نے ان کی میتوں کو عزت بھی نہیں دی اور پولیس کیڈٹس شہداء کی میتوں کو ان کے لواحقین کرایے کے ویگنوں میں چھتوں پر اپنے اپنے گھروں کو لے گئے ،حکومت کو اس کے بعد بھی دعوے کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے ،حکومت کو فوری طورپر اس اقدام پر معافی مانگنی چاہئے اور شہداء وزخمیوں کیلئے فوری معاوضے کااعلان کیاجائے ،انہوں نے کہاکہ ہم 60سال سے مطالبہ کررہے ہیں ہمیں بھی پاکستان کا حصہ سمجھ کر کے ہمیں حقوق اورترقی دی جائے مگر ہماری بات نہیں سنی جاتی سی پیک کا منصوبہ ملتان میں تو شروع ہوتاہے وہاں ترقی دی جاتی ہے مگر ہماری صرف لاشیں گرائی جاتی ہے جب ہماری لاشیں گرائی جاتی ہے تو یہ کہاجاتاہے کہ بلوچستان ہمارا حصہ ہے اس کیخلاف سازشیں ہورہی ہے اور ہماری لاشوں کو یہ ضرور ملک میں شمار کرتے ہیں مگر ترقی میں ہمیں شمار نہیں کرتے اور رقبے کے لحاظ سے ہمیں ہمیشہ لاشوں کے تحفے ضرور دیتے ہیں اور اب لاشوں کا یہ تناسب 50فیصد تک پہنچ چکاہے ،ہم حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سی پیک کو اب آپ جہاں بھی لے جاتے ہو لے جاؤ مگر ہمارے معصوم لوگوں کا خون مزید نہیں بہاؤ ہمیں امن چاہئے ،ہمیں اپنے لوگوں کی جانوں کی تحفظ چاہئے ،حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ بلوچستان میں ’’را‘‘ ملوث ہے تو پھر وزیراعظم محمدنوازشریف نے اقوام متحدہ میں بلوچستان کی بجائے کشمیر پر بات کی اس نے کل بھوشن کی گرفتاری کے حوالے سے کیوں بات نہیں کی ،بھارتی وزیراعظم نے کہاتھاکہ بنگلہ دیش کو اس نے علیحدہ کیا تو پھر ہمارے وزیراعظم نے اس پر اقوام متحدہ میں کیوں بات نہیں کی ؟وزیردفاع اور دوسرے حکام کہہ رہے ہیں کہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کے وقت حملہ آوروں کو افغانستان سے ہدایات مل رہی تھی تو پھر اس معاملے کو کیوں ان کے ساتھ نہیں اٹھا تے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے حکومت اور سیکورٹی اداروں نے کیا اقدامات کئے ؟ہم افغانستان پر حملے کے حوالے سے آپ کے الزامات پر کیسے یقین کرے ؟حکومت سب کچھ کا ذمہ دار ہے وہ کیڈٹس کے خون کا حساب دیں ۔یہ کوئی جواز نہیں کہ ’’را‘‘ اس میں ملوث ہے ،را اگر کچھ کرتی ہے تو پھر وہ واہگہ بارڈر کے قریب علاقوں میں کیوں کچھ نہیں کرتی ؟وہ وہاں سے آکر دھماکہ کرسکتی ہے اور آپ اس کو روک نہیں سکتے !یہ سب کچھ حکومت کی ناکامیاں چھپانے کے بہانے ہیں ،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم گورنر راج سمیت کوئی بھی غیر آئینی مطالبہ نہیں کرینگے بلکہ حکومت خود اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرے اور باالخصوص حکومت میں شامل قوم پرست جماعتوں کو تو شرم آنی چاہئے انہیں اخلاقی طور پر حکومت سے مستعفیٰ ہوناچاہئے ،یہ قوم پرست جب حکومت میں آئے تو انہوں نے امن وترقی لانے اور کرپشن کے خاتمے کی دعوے کئے مگر آج صوبے کا امن سب کے سامنے ہیں ،جنگ اخبار میں رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ موجودہ دور حکومت میں 17خودکش حملے ہوئے جس میں 3سوسے زائد افراد شہید ہوئے یہ ان کا امن ہے ترقی تو ان کا کہیں بھی نظر نہیں آرہی اور کرپشن کی تویہ حالت ہے کہ پورے ملک میں موجودہ بلوچستان حکومت کی کرپشن کی داستانیں سنائی جاتی ہیں ۔