گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک سابق وفاقی وزیر اور پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل یہ کہتے سنے گئے کہ بلوچستان لیویز پر سرداروں کی حکمرانی ہے ۔ انکا موقف یہ تھا کہ بلوچستان میں موجودہ بحران کی وجہ یہ ہے کہ سابق وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی نے بلوچستان لیویز کو دوبارہ بحال کر لیا ورنہ بلوچستان پولیس پورے صوبے کو قابو میں کر لیتی اور یہ مسائل نہ ہوتے۔ ان جنرل صاحب کو یہ نہیں معلوم کہ بلوچستان لیویز کسی سردار یا سرداروں کی نجی فوج نہیں ہے بلکہ ریاست پاکستان کی قانونی اور آئینی فورس ہے ۔ یہ گزشتہ تین سو سالوں سے خدمات سر انجام دے رہا ہے ۔ اس کے تمام اہلکار حکومت کے خزانے سے تنخواہیں لیتے ہیں ان کو ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت جوڈیشل افسران کنٹرول کرتے ہیں ۔ یہ دیہی پولیس بھی کہلاتی ہے جدید دور میں بلوچستان لیویز کا کردار کمیونٹی پولیس کے ہم پلہ ہے ۔ یہ واحد فورس ہے جس سے عوام مکمل طورپر مطمئن ہیں اور ان پر مکمل اعتماد ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ لیویز کا تعلق مقامی آبادی یا کمیونٹی سے ہے جس کے دفاع کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی ہے اس لیے جرائم کے اڈے وہ اپنے گھروں یا رشتہ داروں کے گھروں کے قریب قائم نہیں کرسکتے، نہ ہی چوروں اور ڈاکوؤں کے گروہ پال سکتے ہیں کہ وہ ان کے اپنے ہی لوگوں کو لوٹ لیں بلکہ ان کے دفاع کو بڑا عزاز سمجھتا ہے۔ دوسری طرف پولیس کا معاملہ مختلف ہے وہ عوام اور کیمونٹی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ان کے افسران ان کوزیادہ سے زیادہ کماکر لانے کا کہتے ہیں اس لیے پولیس کے علاقوں میں ’’منظم جرائم‘‘ ہیں ان میں ہر قسم کے اڈے، چور اور ڈاکوؤں کے گروہ پالنا بلکہ اغواء برائے تاوان میں بھی سرکاری اہلکار ملوث پائے گئے ہیں ۔اس لئے قانون نافذ کرنے والے بعض اداروں میں جرائم کی سرپرستی نظر آتی ہے ۔ لیکن بلوچستان لیویز میں اس قسم کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ وجہ۔۔۔ وہ اپنی کیمونٹی کے سامنے جوابدہ ہیں اور منظم جرائم کا ان روایاتی علاقوں میں کوئی تصور نہیں ہے ۔ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔ سب کو ایک دوسرے کی اہلیت اور حیثیت کا پتہ ہے غلط کام کرنے والوں کو فوراً نفرت کاشکار ہو کر الگ تھلگ کردیا جاتا ہے ۔ پھر لیویز کو عوام کی حمایت اور مدد حاصل ہے پولیس اوردوسرے ادارں کو یہ حمایت حاصل نہیں ہے ۔