|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2016

جب روسی افواج افغانستان پر قابض ہوگئیں تو روسی افواج کی مزاحمت کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مذہب اسلام کو لا دینیت کے خلاف استعمال کیاجائے ۔پاکستانی حکمرانوں نے آناًفاناً پورے ایک ہزار ’ مدارس مہینوں میں قائم کردئیے خصوصاً غیبی ادارے سے جو سعودی عرب اور امریکا کے مخیر حضرات نے اسلام کی خدمت کے لئے دئیے ۔ اس میں بلوچستان کے ہر مسجد جس میں صرف چند طلباء تھے اور ان کا کھانا مقامی آبادی اپنے وسائل سے فراہم کرتی رہی بلکہ دہائیوں سے فراہم کرتی رہی تھی اس کی جگہ پر عالیشان مدارس اور ان کی عمارتیں تعمیر ہوئیں جس میں ہزاروں ضرورت مند طلباء کے تعلیم کے ساتھ ساتھ رہائش اور خوراک کا بھی انتظام کردیا گیا صدیوں تک مساجد ایسے ہی رہے اور وہاں پر نماز ادا کی جاتی تھی اور مالی استطاعت کے مطابق ان کو کھانا بھی فراہم کیا جاتا رہا۔ اب مدارس کروڑوں میں کھیل رہے ہیں ۔ سیاسی علمائے کرام جو اپنے اپنے مذہبی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہیں ان کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا۔ 2002ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کو بلوچستان اسمبلی میں صرف اسی بنیاد پر بیس کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کی نشستیں دی گئیں اور وہ صوبے کی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری اور تقریباًبارہ سالوں تک صوبے کے حکمرانی میں برابر کی شریک بنائی گئی صرف اس بار پی ایم اے ہی کو اس کی جگہ اختیارات دئیے گئے ۔ آج تک جے یو آئی کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طورپر اقتدار میں شامل ہو جائے ۔ سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ علمائے کرام زندگی حکومت سے اخراجات حاصل کرکے گزارنا چاہتے ہیں کوشش ہے کہ گھر’ تنخواہ ’ کھانا ’ سواری یا گاڑیاں حکومت کی طرف سے ہوں ذاتی طورپر وہ کچھ خرچ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ موجودہ حکومت کے تین سال ان لیے مشکل ترین ہیں جو علمائے کرام گزار رہے ہیں اس لیے مولانا فضل الرحمان ہر حکومت میں حصہ دار نظر آتے ہیں حکومت سے باہر نہیں رہنا چاہتے تاکہ وہ اپنے حلقہ انتخاب یعنی مدارس کا بھرپور دفاع کرتے رہیں ۔ ہر جگہ جمعیت کا جلسہ عام ہوتا ہے ہزاروں کی تعداد میں مدارس کے طلباء ہجوم میں بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں کل ہی عمران کے خلاف جمعیت کا جلسہ عام تھا اس میں واضح اکثریت مدارس کے طلباء کی تھی ۔اسی طرح مولانا سمیع الحق بھی مدارس کے مالک ہیں ہزاروں طلباء ان کے مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ان مدارس کی بنیاد پر اکثر مذہبی رہنما ہر طرح کے فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں ۔ چونکہ مذہبی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہ مذہبی رہنما ان کالعدم تنظیموں کے ناجائز اور غیر قانونی مفادات کا تحفظ کرتے رہتے ہیں حال ہی میں مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں وزیر داخلہ سے ملاقات کی اور کالعدم تنظیموں کے لئے سب کچھ حاصل کیا۔ ایک کالعدم تنظیم کا سربراہ اجلاس میں موجود تھا قصہ مختصر وفاقی اداروں کو ان کالعدم تنظیموں اور ان کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف تمام اقدامات واپس لینے کے احکامات بھی جاری ہوئے۔ وجہ یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں اور کالعدم تنظیمیں حکومتی پارٹی کے حمایتی اور ووٹ بنک ہیں اس لیے پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے بجائے کالعدم تنظیمیں اور مذہبی جماعت اہم ہیں اس لیے مدارس کے لئے نرم ترین گوشہ ہے ہمارا مؤقف یہ ہے کہ مدارس ایک متوازی نظام تعلیم چلا رہے ہیں اور ان کی قوت پر بعض مذہبی رہنماء سیاست کررہے ہیں جس کی اجازت نہیں ہونی چائیے اس لئے ان تمام مدارس پر حکومت کنٹرول کرے اور ان کو وسیع تر نظام تعلیم کا حصہ بنایا جائے ۔ تعلیمی اداروں کی بنیاد پر نہ کسی کو تجارت کرنے کی اجازت دی جائے اور نہ ہی سیاست ۔جس کو سیاست کرنی ہے وہ مذہبی لبادہ الگ کرکے سیاست میں آئے ۔ مدارس کے طلباء کو جلسہ عام کے ہجوم کے طورپر استعمال کرنے کے شواہد خضدار کے جلسہ عام میں صاف نظر آئے اور یہ ثابت ہوا کہ مدارس مذہبی جماعتوں کے لئے صرف ہجوم اکٹھے کرنے اور کارکن کے طورپر استعمال کرنے کے لئے ہیں اور اس میں مذہب کا لبادہ اوڑھا گیا ہے ۔