|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2016

کوئٹہ: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اگر پولیس ٹریننگ کالج میں کیڈٹس کے پاس اسلحہ ہوتا تو یہ حملہ نہیں دوبدولڑائی ہوتی سانحات کے بارے میں کس سے پوچھیں سیکورٹی حکام اور چیف سیکرٹری سے بھی تحقیقات ہونی چاہئے میں اس دن سیاست چھوڑ دونگا جس دن میں نے اپوزیشن کا حق چھینا آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارلیمان میں بیٹھا کوئی بھی شخص عوام کے ووٹ کو تقدس نہیں دے رہا ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ کوئٹہ ایک دہشت زدہ شہر بن چکا ہے یہاں سول ہسپتال میں 60 سے 70 وکیل شہید ہوئے تو ہسپتال کے ایم ایس کو نکال دیا گیا 100 سے زائد اہلکاروں کو پولیس ٹریننگ کالج میں بٹھایاگیا تو ان کیساتھ 2 کلاشنکوف بھی نہیں تھیں اس واقعہ میں بھی قربانی کا بکرا نچلے طبقے کے افسران کو بنا دیا گیا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں میں نے ایک لفظ بھی کسی کے بارے میں نہیں کہا تھا جس سے متعلق میری خبریں شائع ہوئیں اگر ہمارے بچے مرتے رہیں تو ہم کس سے پوچھیں گے یہ تو اچھا ہے کہ دہشت گردوں کے پاس شاید بندوقیں کم تھیں ورنہ وہ وہاں موجود باقی لوگوں کو بھی قتل کر دیتے کوئٹہ میں ایف سی اہلکار وں کو مارا گیا سر پل کے قریب ایف سی کے جوان قتل ہوئے ہم سب کو کوئی جنات تو نہیں ماررہے امن وامان کے قیام میں کہاں کمی ہے اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے سیکورٹی حکام سے لیکر چیف سیکرٹری تک تحقیقات ہونی چاہئے اگر پاکستان کو بچانااور چلانا ہے تو آئین کے عین مطابق چلنا ہوگا ورنہ مزید بربادیاں ہونگی انہوں نے کہا کہ میں 14 اگست کو چیف سیکرٹری بلوچستان ملا تو میں نے انہیں رابٹ سنڈیمن کہا کیونکہ یہاں ہر کوئی اس صوبے کو ایک کالونی کی حیثیت دیتا ہے میرخالد لانگوآج جیل میں ہیں اور ان کے سیکرٹری کے خلاف تحقیقات جاری ہیں کیاکوئی بتا سکتا ہے کہ ایک سیکرٹری چیف سیکرٹری کی اجازت کے بغیر کچھ کر سکتا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے کی استطاعت دیکھی جائے تو ہمارے پاس وکلاء کی ایک لاٹ تھی جو سانحہ 8 اگست میں ہم سے چھین لی گئی اس میں کیا انکوائری ہوئی جس طرح کنٹونمنٹ میں گیٹ لگائے گئے ہیں اگر یہی گیٹ ٹریننگ سینٹر اور ہسپتالوں میں لگائے جائیں تو حالات کیسے خراب ہونگے کوئٹہ آج آسیب زدہ شہر بن چکا ہے دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے عوام ‘فورسز سمیت ہم نے 3 ہزارسے زائد قربانیاں دی ہیں مگر نقص تلاش نہیں کیا جاسکا چیف سیکرٹری کی مصروفیات کچھ زیادہ ہیں وہ عوام کیلئے نہیں بلکہ کہیں اور خدمات پیش کررہے ہیں پولیس ٹریننگ سینٹرپراس سے قبل بھی حملے ہو چکے ہیں تو کیا وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے انہیں خضدار سے اسلحہ لاکر دینا تھا آج دنیا ہم سے پوچھے گئی کہ اتنے دہشت زدہ شہر میں کیونکر سیکورٹی انتظامات نہیں اٹھائے جاتے ہم سب نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار پھر ہم حلف اٹھائیں انہوں نے کہا کہ میری نظر میں عمران خان ہو فضل الرحمان یا نوازشریف ہم سب کو عوام نے ووٹ دیکر ایوان میں بھیجا ہے اور اپوزیشن کرنا ہر آدمی کا حق ہے مگر احتجاج آئین کے دائرہ کار میں ہونا چاہئے یہاں پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن تک دھرنا ہوا پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا اس کی کیا تحقیقات ہوئیں میں حلفاً کہتا ہوں کہ جس دن میں نے کسی سے اپوزیشن کا حق چھینا اس دن سیاست چھوڑ دونگا انہوں نے کہا کہ جب میں یہ حق اپنے لئے مانگتا ہے تو کسی سے کیسے چھین سکتے ہیں کوئٹہ میں آج تک ہمارے جلسہ جلسوں کے دوران دکانیں بند نہیں کرائی گئیں انہوں نے کہا کہ ٹی او آر ز کے معاملے پر اپوزیشن کو سپریم کورٹ میں بلایا جارہا ہے اگر سپریم کورٹ تحقیقات کیلئے میرے بھائی کو حکم دے اوروہ نہ مانے تو میں اپنے بھائی کیخلاف بھی احتجاج کرونگا مگر سب سے پہلے سپریم کورٹ کو اس کا کام کرنے دیا جائے جو بھی آدمی جمہوریت کی بقاء کیلئے جدوجہد کرتا ہے وہ ملک کی خدمت ہے کیونکہ پاکستان کو اب ایک مکمل جمہوری ریاست بنانا ہوگا اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ادارہ آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرے ایسی ریاست کا میں مفت کا سپاہی بنوگا انہوں نے کہا کہ ہمیں خداکوخاطر ناظر جان کر یہ کہنا ہوگا کہ اب کرپشن ایک بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے ہر ادارے میں کرپشن ہورہی ہے لہٰذا اگر ہمیں پاکستان عزیز ہے تو تمام اداروں پر مشتمل ایک گول میز کانفرنس بلانی چاہئے جہاں ہم واضح طورپر یہ قبول کریں کہ ہم سب نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے اور ایک ایسا ادارہ بنایاجائے جو مکمل اختیارات کا حامل ہو اور ریاست کے ہر ادارے کا شفاف احتساب کر سکے انہوں نے کہا کہ دراصل پارلیمان کیلئے چنے گئے لوگوں نے عوام کے ووٹ کو تقدس نہیں دیا حقیقت پسندی کا سامنا کرناضروری ہے میرا میرے مخالفین سے وعدہ ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کریں میں ان کیساتھ ہوں انہوں نے کہا کہ معاشرے کا احترام تب ہی رہ سکتا ہے جو بات ہم اپنے لئے بری سمجھیں اسے دوسروں کیلئے بھی برا جانیں جو عزت خود کیلئے درکار ہے دوسروں کو بھی وہی عزت دیں انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری آدمی کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ڈان کے صحافی کو ای سی ایل لسٹ میں ڈالنا غلط عمل ہے صحافی کی ڈیوٹی ہے کہ وہ خبر نکالے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خبر بتانے والے کا نام ظاہر نہ کرے ۔