|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2016

پنجگور : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ جب بھی ہم نے حقوق مانگا تو ہمیں غدار کہا گیا بلوچوں کا ہمیشہ ترقی کے نام پر استحصال کیا گیا گیس سونا چاندی اور دیگر معدنی وسائل جو بلوچستان سے نکلتی ہیں ان کا فائدہ آج تک بلوچ کو نہیں ملا بلوچستان میں آٹھ اگست کا دکھ اور ماتم کا سلسلہ جاری تھا کہ چوبیس اکتوبر کو مذید 62لاشوں کا تخفہ دے کر پورے بلوچستان کو سوگ میں ڈبودیا گیا حکومت کہتی ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن کوئٹہ واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ دہشت گردوں کی بجائے معصوم اور بے لوگوں کی کمر ضرور دہشت گردی سے ٹوٹ گئی اس سے قبل بلوچستان کے پہاڑوں اور ویرانوں میں مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں اب بلوچستان کے گھروں میں اجتماعی لاشیں پہنچ رہی ہیں بلوچستان میں گزشتہ 70سالوں سے محرومی زیادتی نا انصافیوں کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں ملا ہے سی پیک کے نام پر ترقی کا جو دعوی کیا جارہا ہے لیکن سی پیک سے آج بھی گوادر سمیت بلوچستان کے عوام سہولتوں اور پانی کی گھونٹ سے بھی محروم ہے کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی میں سردار اور نواب رکاوٹ ہیں مگر مکران میں تو کوئی سردار نہیں ہے تو پھر یہاں کیوں پسماندگی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہدائے پنجگور کی یاد میں چتکان بازار میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا جلسہ میں ضلع بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی پنڈال میں پہنچنے پر لوگوں نے کھڑے ہوکر سردار اختر مینگل کا والہانہ استقبال کیا اور بی این پی سردار مینگل زندہ باد کے نعرے لگائے جلسہ سے مرکزی نائب صدر ملک ولی کاکڑ بی ایس او کے مرکزی چیرمین نذیر بلوچ بی این پی کے مرکزی جوائنٹ سکریٹری میر نذیر احمد پروفشنل سکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور مرکزی کمیٹی کیارکین واجہ جہانزیب بلوچ حاجی زاہد حسین ضلعی صدر عبیداللہ بلوچ سابق صدر کفایت اللہ میر نظام بلوچ عبدالقدیر اور راشد لطیف بلوچ بھی خطاب کیا سردار اختر جا مینگل نے کہا کہ جو ترقی ہماری زبان تشخص شناخت اور وجود کو ختم کرنے کے لیے ہو تو ہم اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کریں سردار اختر مینگل نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اقدار کی بجائے اقتدار کو ترجیح دے کر بلوچستان کے وسائل کا سودا کرلیا اور سی پیک کو گوادر اور بلوچستان کی ترقی قرار دیا لیکن اس ترقی سے حاصل خان بزنجو کی پیٹ اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر مالک بلوچ کی پلاٹوں میں ضرور اضافہ ہوا انہوں نے کہا کہ سی پیک کے نام روز روز ترقی کے دعوے اور اشتہاری بورڈ آویزان کئیے جاتے ہیں مگر جس ترقی کے نام پر پاکستان کو چائنا کی طرف سے 46بلین ڈالرز ملے ہیں اس پر بھی حکمرانوں نے بدنیتی کا مظاہرہ کرکے 45بلین پنجاب اور سندھ خرچ کیئے جارہے ہیں صرف ایک بلین گوادر اور بلوچستان کو دیا گیا ہے جس میں گوادر انٹر نیشنل ائیرپورٹ پاورپلانٹس اور ایکسپریس وے کی شامل ہیں جو خالصتا پورٹ اور چائینز کی سہولت کے لیے ہیں جبکہ گوادرکے عوام پانی تعلیم صحت اور روز گار کے لیے مارے مارے پھر رہے اور سی پیک کے تمام مزے پنجاب لے رہا ہے انہوں نے کہا کہ بی این پی نے کھبی بھی ترقی کی مخالفت نہیں کی ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو روزگار اور سہولتیں ملیں انہوں نے کہا کہ جب ترقی کے نام پربلوچستان کے عوام کو پانی بجلی صحت تعلیم گیس اور روز گار کی سہولت میسر ہو جو بلوچ قوم کی شناخت اور بقا کی ضامن ہو تو اس ترقی کو خوش آمدید کئیں گے مگر جس ترقی میں ہماری قومی شناخت اور بقا کے لیے خطرہ محسوس ہو تو اس کی ہر صورت میں مخالفت کریں گے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ ملک یہ المیہ رہا ہے کہ اپنی پالسیوں پر نظر ثانی کی بجائے ملک میں ہر واقعہ کو ہندوستان سے جوڑ کر خود کو بری الزمہ قرار دیتا ہے حالانکہ ہندوستانی سرحدیں پنجاب اور سندھ سے ملتی ہیں لیکن وہ اتنے بڑے شہروں کو چھوڑ کر بلوچستان پر کیوں حملہ ہوتا ہے کیا ہم نے مودی کے باپ کو قتل کیا ہے انہوں نے کہا کہ آٹھ اگست اور چوبیس اکتوبر کے المناک واقعہ کے زمہ دار صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہیں مگر ان واقعات پر استعفی دینے کی بجائے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی گئی انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہاوس سے ایک خبر لیک ہوجانے سے ہل چل مچ گئی اور وزیر اعظم نے اپنے چہتے وزیر اطلاعات اور سکریٹری کو گھر بھیج دیا مگر بلوچستان کے واقعات پر انھیں کسی کو فارغ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ پنجگور جو پانچ قبروں کے نام سے پہچانا جاتا ہے لیکن اج پنجگور سینکڑوں معصوم اور بے گناہ لوگوں کی قبرستان بن چکا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں الزام دیا جاتا ہے کہ قبائلی سردار اور نواب ہیں جو ترقی نہیں ہونے دیتے مگر بلوچستان میں چار ضلع پنجگور گوادر خاران تربت میں تو کوئی سردار نواب نہیں ہے مکران کو تعلیم یافتہ طبقے کی شہر کہا جاتا ہے یہاں سے اچھے عہدوں پر لوگ رہے ہیں ہم تو جاہل اور قبائلی نظام میں جھکڑے ہوئے لوگ تھے پھر ان علاقوں میں تعلیم صحت اور دیگر ترقی کے اثار نظر آنے کی بجائے کیوں لاشوں کا تخفہ دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی زی الشعور شخص شوق سے بندوق نہیں اٹھاتا ہے یہ وہ نوجوان تھے جن کا ہتھیار قلم اور کتاب ہوا کرتے تھے انھیں کیوں اس راستے پر دھکیلا گیا جو بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی موجودہ صورت حال سے نمٹنا کسی ایک پارٹی کی بس کی بات نہیں ہے اگر بلوچستان کے عوام کو اپنی بقا ننگ وناموس شناخت اور زمین سے محبت ہے تو وہ بی این پی کو مظبوط اور طاقتور کے طور پر سامنے لائیں تو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ دوسروں کی طرح اقتدار کے لیے ضمیر فروشی کرنے کی بجائے ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینگے جلسہ سے مرکزی نائب صدر عبدالولی کاکڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 70سالوں سے بلوچستان میں غداری اور ایجنٹ کے نام پر آپریشن کرکے بلوچوں اور پشتونوں کا قتل عام کیا جارہا ہے بلوچوں او پشتونوں نے اپنی آباواجداد کی شکل میں اس ملک کے لیے قربانی دے کر وفاداری جتایا مگر آج تک اس ملک کے حکمرانوں نے بلوچوں اور پشتونوں کو دل سے اس ملک کا شہری تسلیم نہیں کیا ہے حالانکہ ہم نے اپنے حقوق کے لیے پارلیمان ضمہوریت اور عدلیہ کا سہارا لیا مگر انصاف ملنے کی بجائے ہمیں روز روز لاشوں کے تخفے دئیے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت بلوچ اور پشتوں کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ اس میں شامل قوم پرست نہیں بلکہ ضمیر فروش کھلانے کے لائق ہیں اور پنجاب کے ایجنٹ اور غلام ہیں ان کے ہاتھ بلوچوں اور پشتونوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اب وہ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں جس دن بلوچوں اور پشتونوں نے فیصلہ کرلیا تو دن انتہاہی بھیانک ہوگا انہوں نے کہا کہ بلوچستان خاص کر پنجگور کے لوگوں کا کاروبار بارڈر پر ہے مگر سیکورٹی کے نام پر غریب بلوچوں کے کاروبار قدغن لگا کر انھیں بے روز گار کیا جارہا ہے اس دوران بی ایس او کے چیرمین نذیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت کو صرف بلوچ کی نسل کشی کے لیے رکھا گیا ہے جس نے اقتدار میں آکر بلوچستان کے گوادر ریکوٖڈیک سمیت تمام وسائل کو پنجاب کے ہاتھوں بھیچ کر بلوچ قوم کو دھوکہ دیا انہوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ پنجگور میں سولہ لاشوں کے آنے سے پورا پنجگور ماتم اور سوگ میں ڈوبا ہوا تھا مگر چند قوم پرستوں نے پکنک منایا اور جو اقتدار میں انہوں نے ضمیر کا سودا کرکے لاشوں کے ہمراہ پنجگور انے کی بجائے کوئٹہ میں بیٹھ کر سلفیاں بنائیں انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ لنگی لولی لگڑی تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم پر توجہ دیں اس موقعے پر جلسہ عام میں مختلف پارٹیوں سے سیینکڑوں افراد نے استعفی دے بی این پی میں شمولیت اختیار کرلیا ۔