|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2016

کوئٹہ: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کا اجلاس وزارت آئل اینڈ گیس کے حوالے سے کمیٹی کے چےئرمین سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی صدارت گزشتہ روز منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ممبرن ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل ،سینیٹر خالدہ پروین ، سینیٹر گیان چند اور متعلقہ وزارت کے افیسران نے شرکت کی ۔اجلاس میں مختلف امور زیر بحث لائیں گئے اور اس سلسلے میں اہم فیصلے اور سفارشات کےئے گئے ۔ اجلاس میں آئل اینڈ گیس اور او جی ڈی سی ایل کے ریجنل آفس کوئٹہ اور پشاور کو تاحال نہ کھولنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2010میں قومی اسمبلی نے فیصلہ کیا تھا کہ متعلقہ محکموں کے ریجنل آفس جلد از جلد کوئٹہ اور پشاور میں کھولیں جائینگے ۔ مگر تاحال اس سلسلے میں خاطر خوان اقدامات نہ اٹھانا باعث تشویش ہے ۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا اور متعلقہ وزارت ومحکمہ کو ہدایات جاری کی گئی کہ جلد از جلد ان ریجنل دفاتر کو کھول کر فعال بنایا جائے۔ اجلاس میں ملک کے 8بڑے ریفائنری میں سے ایک بھی خیبر پشتونخوا میں نہیں ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے خیبر پشتونخوا کے ضلع کرک میں جلداز جلد ریفائنری تعمیر کرنے کی ہدایت کی ۔ قائمہ کمیٹی نے کوئٹہ ، زیارت ، قلات ، پشین میں ہر سال سردیوں کی شدید موسم میں جہاں درجہ حرارت منفی 11سے اوپر رہتا ہے گیس پریشر میں کمی اور بہت سے علاقوں میں گیس کا بالکل غائب ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ اور کہا گیا کہ اب پھر سردیوں کے موسم کی آمد آمد ہے اور ایک بار پھر گیس کی پریشر کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے ۔ کمیٹی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام کو سختی سے ہدایت کی کہ 30نومبر تک گیس کے پریشر کو ٹھیک کیا جائے اور قائمہ کمیٹی کو رپورٹ پیش کیا جائے ۔ اجلاس میں چمن ، خانوزئی، مسلم باغ ، قلعہ سیف اللہ ، دالبندین ، آواران لورالائی، موسیٰ خیل ، وڈھ ، دکی ، سنجاوی میں جلد از جلد گیس پائپ لائن بچھانے اور متعلقہ علاقوں میں گیس پہنچانے کے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے ۔ اور بجٹ کے 450ارب روپے صرف 17ارب روپے کا ان منصوبوں پر خرچہ آئیگا ۔ اجلاس میں فاٹا میں 2010کے منظور شدہ ایک ارب روپے کے پروجیکٹ پر تاحال کام نہ شروع کرنے پر شدیدتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وفاقی حکومت فاٹا کے مذکورہ منصوبے پر فی الفور کام شروع کرے اور 2017تک تمام منصوبے مکمل کریں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ گیس کی پیداوار 80فیصد خیبر پشتونخوا ،بلوچستان اور سندھ سے حاصل ہوتا ہے مگر دانستہ طور پر ان صوبوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ قابل تشویش عمل ہے۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر کہا کہ پسماندہ علاقوں میں جلد از جلد گیس کی ضروریات پوری کی جائیں۔اجلاس میں وفاقی محکموں ، وزارتوں ، کارپوریشنوں اور مختلف کمپنیوں میں بلوچستان اور فاٹا کے کوٹہ پر مکمل عملدرآمد کرنے پر زور دیا گیا ۔ اوربلوچستان کے ملازمتوں پر کسی اور صوبے اور اسلام آباد کے لوگوں کے جعلی ڈومیسائل ، سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات کوصوبے اور متعلقہ ضلع سے تصدیق کرانا ضروری ہے او ر تصدیق کے بغیر کسی بھی امیدوار کو کسی بھی پوسٹ پر تعینات نہ کیا جائے اور اس فیصلے پر سختی سے عملدرآمد ہونی چاہیے۔ اجلاس میں آئل اینڈ گیس کے وزارت کو ہدایت کی گئی کہ وہ بلوچستان میں اپنے ملازمین اور متعلقہ علاقوں کے مریضوں کے ہیپاٹائٹس سی اور بی کے مریضوں کے ٹیسٹ پی سی آر آغا خان لیبارٹری سے کرائیں جائیں۔ اور ملک کے اندر سکالر شپ کی تعداد بڑھا ئی کر کم ترقی یافتہ علاقوں کے طلبا ء وطالبات کو ترجیح دی جائیں۔