وفاقی حکومت نے ایک کمیشن بنایا تھا جس کی سربراہی سرتاج عزیز نے کی تھی اس میں دیگر حضرات کے علاوہ وفاقی وزیر جنرل( ر) عبدالقادر بلوچ بھی تھے ، کمیشن نے دیگر باتوں کے علاوہ حکومت سے یہ جائز سفارش کی تھی کہ فاٹا کو صوبہ پختونخواء میں شامل کیا جائے ۔ اس فیصلے کی ملک بھرمیں جمہوریت پسند لوگوں اور اداروں نے تعریف کی تھی بہر حال اس سے متعلق دو رائے تھیں بعض لوگ فوری طورپر فاٹا کو کے پی کے میں شامل کرنا چاہتے تھے اور باقی کچھ لوگ جن میں سرکاری حلقے بھی شامل ہیں اس کو مرحلہ وار شامل کرنے کے حق میں تھے ۔ صرف چند ایک گروہ یا ایک آدھ سیاسی پارٹیاں تھیں جو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔ ان میں ایک جمعیت علمائے اسلام اور دوسری پختون خواہ نیشنل عوامی پارٹی PMPA ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی مخالفت کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ فاٹا کا کے پی کے میں شامل ہونے کے بعد پارٹی کے کبھی اور کسی بھی دور میں اقتدار میں آنے کے مواقع معدوم ہوجائیں گے’ جتنا بڑا صوبہ کے پی کے ہوگا جمعیت علمائے اسلام کی اسمبلی میں نمائندگی اسی تناسب سے کم ہوگی۔ موجودہ اسمبلی میں ایک موقع ایسا آیا تھا کہ جمعیت نے حکمرانی بھی کی تھی۔ اس میں جنرل پرویزمشرف اور افغانستان کی صورت حال بھی شامل تھی ۔ جہاں پر امریکیوں نے طالبان کی حکومت کو یلغار کے ذریعے بے دخل کیا تھا اور پرویزمشرف نے کے پی کے میں طالبان کے اساتذہ کی حکومت بنا ڈالی۔ فاٹا میں شمولیت کے بعد جے یو آئی کی اہمیت بہت زیادہ کم ہوجائے گی اس لیے مولانا فضل الرحمان اس کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اس بات پر ریفرنڈم کرایاجائے تاکہ یہ معاملہ موخر ہوجائے ۔ دوسری جانب پختون خواہ پارٹی کی پالیسی واضح نہیں کہ وہ کے پی کے میں فاٹاکی شمولیت کی کیوں مخالفت کررہے ہیں ۔ ابھی تک ان کا اس معاملہ پر واضح موقف سامنے نہیں آیا کہ وہ پختونوں کے اتحاد کی مخالفت کیوں کررہے ہیں ۔ پختون عوام کو آئینی اور قانونی حقوق کی کیوں مخالفت کررہے ہیں اسمبلی میں براہ راست نمائندگی نہیں ابھی تک وہاں پولیٹیکل افسر کی حکمرانی ہے ۔ وہ وہاں پر پارلیمان اور سپریم کورٹ حکمرانی کی مخالفت کررہے ہیں۔ صرف ایک بات ممکن ہے کہ اس کی مخالفت صرف افغانستان اور اس کی پالیسی کی وجہ سے کررہے ہیں کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔