ملک کے اندر سیاسی بحران وقتی طورپر موخر ہوگیا ہے تحریک انصاف نے اپنا احتجاج ملتوی کردیا خصوصاً سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کہ عدالت عالیہ خود کمیشن بنائے گی جو خودمختار ہوگی اور اس کے فیصلے کو سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھا جائے گا اور سب پر لازم ہوگا کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کریں۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے تمام فریقوں سے یہ پوچھا تھا کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کریں گے تو سب نے حامی بھری۔ اب سپریم کورٹ خود ٹی آر او بنائے گا اور وقت کا بھی تعین کرے گا کہ کب تک اس کا فیصلہ ہونا چائیے ۔ دوسری طرف وزیراعظم نے اپنی اس بات کا بھی اعادہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے معلوم نہیں یہ سب کچھ پہلے کیوں نہیں کیا گیا ملک کو کیوں ایک بحرانی کیفیت میں داخل کیا گیا ۔ مسئلہ صرف اس لیے پیدا ہوا کہ وزیراعظم جوابدہی کے لئے تیا رنہیں تھے ان کے مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وزیراعظم کسی بھی ڈسپلن کے پابند نہیں تھے اور اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتے تھے بلکہ ہر ادارے کے سربراہ کو انہوں نے بطور نوکر مقرر کیا تھا اس لیے وہ اپنے آپ کو ان اداروں سے بالا تر گردانتے تھے ۔اگر وہ متحدہ حزب اختلاف کا ٹی او آر مان لیتے تو آج یہ بحرانی کیفیت قوم کو دیکھنی نہیں پڑتی ۔ حقیقتاً وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے ہیں اور ان کا پورا طرز عمل بادشاہوں کی طرح ہے ، وہ سعودی عرب کی بادشاہت سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں اس لیے مسائل پیدا ہوگئے ۔ اگر وہ پارلیمان کو ایک با اختیار ادارہ سمجھتے اور ٹی او آر کا مسئلہ وہیں حل کر دیتے تو یہ بحرانی کیفیت کبھی پیدا نہیں ہوتی ۔گزشتہ چھ ماہ سے پاکستان بھر میں عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اب خدا خدا کرکے سپریم کورٹ نے اس میں مداخلت کی تب جا کر لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوا اور یہ امید پیدا ہوگئی کہ خطا وار کو ضرور سزا ملے گی ۔ جھوٹے کو گھر تک پہنچایا جائے گا ، ملک میں دوبارہ استحکام کی صورت حال پیدا ہوگی اور پوری قوم یکسوئی کے ساتھ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گی اور ملک میں داخلی طورپر امن قائم ہوگا۔