|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2016

کوئٹہ: بلوچستان کے علاقے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر جہاز میں لگنے والی آگ کو تیسرے روز بھی نہ بجھایا جاسکا، تحقیقات کے لیے 20افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے جہاز کے خریدار چودھری عبدالحفیظ کو گرفتارکرلیا گیا ہے، ٹھیکیدار پہلے ہی زیرحراست ہے۔جہاز میں موجود کروڈآئل اور گیس سیلنڈر کے دھماکے وقفے وقفے سے جاری ہیں جس کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔تحقیقات کے لیے بلائے گئے اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان کوبتایا گیا ہے کہ جہازتوڑنے کیلئے محکمہ ماحولیات اور بی ڈے اے سے این اوسی نہیں لیا گیا تھا۔متاثرہ جہاز ایم ٹی ایس ایس کو انیس رکنی بھارتی عملہ22 اکتوبر کو شپ بریکنگ یارڈ گڈانی لایا اور اسی دن واپس چلاگیاتھا۔وزیراعظم کی ہدایت پر وزیربرائے دفاعی پیداوار کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں تفصیلات کے مطابق گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پرحادثے کو 50 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ لیکن اب بھی وقفے وففے سے آگ بھڑک اٹھتی ہے اور دھماکے سنائی دینے لگتے ہیں۔ آگ پر مکمل طور پر قابو پانے میں مزید کچھ وقت لگ سکتا ہے، کیوں کہ فائربریگیڈ کے عملے کے پاس آگ بجھانے کے لئے درکار فوم مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہیں۔حادثے کے بیشتر زخمیوں کو کراچی کے سول اسپتال میں منتقل کیا گیا ہے، جہاں برنس وارڈ میں ان مریضوں کا علاج جاری ہے۔ مریضوں میں سے اکثریت ابھی تک کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ صرف ایک آدھ مریض ہی واقعے کی تفصیلات بتانے کے قابل ہے۔ زخمی کے قریبی عزیز نور خان نے بتایا کہ حادثے کے وقت مخملستان، جو سوات کا رہنے والا ہے، متاثرہ بحری جہاز پر روز مرہ کے کام میں مصروف تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ فٹر ہے، جبکہ وہ خود بھی مزدور ہے لیکن حادثے کے وقت اس جگہ سے دور تھا۔نور خان کے مطابق، اچانک زور دار دھماکہ ہوا اور ہر طرف آگ ہی آگ پھیل گئی۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جہاز میں اس وقت 100 سے قریب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، جن میں سے کئی افراد کا ابھی بھی کچھ پتہ نہیں۔شپ یارڈ حادثے میں محفوظ رہنے والے افراد اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت ناکارہ بحری جہاز پر مزدور، گیس کٹر کے ذریعے جہاز کے مختلف حصوں کو توڑنے میں مصروف تھے کہ دھماکا ہوگیا۔ دھماکے سے لوہے کی چادریں، نٹ بولٹ اور دیگر بھاری بھرکم اشیا اڑ اڑ کر مزدورں پر گرتی گئیں جبکہ اسی دوران آگ نے بھی انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔متاثرہ جہاز یارڈ کے پلاٹ نمبر 56 پر کھڑا تھا جو دراصل ایک آئل ٹینکر تھا جس کا وزن 22ہزار ٹن تھا۔ اسے مسمار کرنے کے لئے گڈانی لایا گیا تھا۔ عموماً جہاز کو توڑنے سے پہلے اس کا فیول ٹینک خالی کیا جاتا ہے لیکن ایک مزدور کے بقول ٹھیکیدار کو کام مکمل کرنے کی بہت جلدی تھی اور شاید اسی جلدی میں کام خراب ہوگیا۔جائے حادثہ کے قریب موجود ایک مزدور عبدالرب نے صحافیوں کو بتایا کہ دھماکے کے فوری بعد گہرے کالے دھویں کے بادل چاروں طرف پھیل گئے۔ دھماکے سے وہ خود بھی کئی فٹ دور جا کر گرے۔قریبی پلاٹ پر کام کرنے والے مزدور سلیم بلوچ کے مطابق، متعدد مزدور اب بھی جہاز کے اندر پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ لیکن، آگ اور دھویں کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔شپ بریکنگ مزدور یونین کے صدر، بشیر محمود کا کہنا ہے کہ یہ شپ بریکنگ یارڈ کی تاریخ کا بدترین حادثہ ہے۔ یارڈ کے مزدوروں نے صحت اور حفاظتی سہولتوں کی فراہمی کے لئے اتوار کو مظاہرہ بھی کیا تھا۔ بدقسمتی وہی مزدور حادثے کا نشانہ بن گئے۔