|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی میں صوبے میں تعلیم اور صحت کمیشن کے قیام کی قراردادیں متفقہ طورپر منظور کرلی گئیں صوبائی وزیر بلدیات کا بیوروکریسی کے روئیے کے خلاف احتجاجاًاسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ ، حکومتی و اپوزیشن اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ ۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو 20منٹ کی تاخیر سے اسپیکر محترمہ راحیلہ حمیدخان درانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں صوبے میں ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے متعلق مشترکہ قرارداد نمبر 111پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید خان اچکزئی نے پیش کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے تمام صوبوں ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ بلوچستان میں تاحال ایجوکیشن کمیشن موجود نہیں ہے لہذا ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبے میں جلد ازجلد ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے ۔انہوں نے کہاکہ کمیشن میں اسمبلی ممبران محکمہ تعلیم اور شعبہ تعلیم میں مہارت رکھنے والے افراد کی تجاویز لی جائینگی جس سے صوبے میں تعلیم کی زبوں حالی کو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی قراردارپر بات کرتے ہوئے اے این پی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ ہمارے یہاں سسٹم خراب ہے ایک سکول تین ناموں سے فنڈز حاصل کرر ہاہے بلوچستان میں بھی دیگر صوبوں کی طرح کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہاکہ ڈاکٹرمالک کے دور حکومت میں محکمہ صحت اور تعلیم بیڑہ غرق ہوگیا ان کا نعرہ تھا کہ ہم کرپشن ختم کرینگے لیکن ان کے دور حکومت میں تعلیم کو تباہ کردیا گیا بارکھان میں محکمہ تعلیم با الکل تباہ ہوچکا ہے ا س پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اس بات کا جواب دیتے ہوئے میر خالد لانگو نے کہاکہ اپوزیشن اراکان ڈاکٹر مالک فوبیہ سے باہر نکل آئیں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا الزام قوم پرستوں اور ڈاکٹر مالک پر ڈال دیا جا تاہے وہ شریف آدمی ہیں اگر کسی نے جراً ت کرنی ہے تو وہ مردوں کی طرح سب کے سامنے بولیں اور سب کی مخالفت کریں نہ کہ کسی ایک شخص کے ساتھ ذاتی انا کی بنیاد پر اسے تنقید کا نشانہ بنائیں جس پر سردار عبدالرحمان کھیترا نے کہاکہ ہم دشمنی کرنا اور دشمنی پالنا دونوں جانتے ہیں اگر کسی کو شک ہے کہ تو و ہ معلوم کرلیں اور کون کتنا مرد ہے ہمیں پتہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں اپنے لوگوں کو نوازہ گیا متوسط طبقے کا نام استعمال کرنے والے لوگوں کو لائف سٹائل اب تبدیل ہوچکا ہے مجھے سرکاری ملازم پر فخر ہے میں خود بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے اور میں عوام کا نمائندہ ہوں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ میں سیاسی طورپر کمیٹیٹڈانسان ہوں زمانہ طالبعلمی سے شعبہ تعلیم کیلئے کام کر رہا ہوں میں نے بارکھان میں بھی بہت کام کیا ہے بلوچستان کے لوگوں کو معلوم ہے کہ میں نے اپنے دور حکومت میں کیا کیا اور وہ اس کے گواہ ہیں ہم ایوان کے ڈیکورم کی عزت کرتے ہیں میں جواب دینا جانتا ہوں اگر سردار عبدالرحمان کھیتران تعلیم پر کئے گئے کام پر بات کرنا چاہتے ہیں تو اس پر ایک دن مقرر کرلیں سب کو معلوم ہوجائے گا کہ کس نے اپنے دور میں کیا کیا کیا ؟رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد جمالی نے قراردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ قرارداد بروقت ہے اس کی اشد ضرورت ہے ہمیں دیگر صوبوں سے بھی تجاویز حاصل کرنی چاہئیں ۔ انہوں نے کہاکہ اراکین اسمبلی کو الفاظ کے چناؤ اور بات کرنے کے انداز میں خیال رکھنا چاہئے کہ جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ روف نے کہاکہ ایجوکیشن کمیشن کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے کیونکہ اپوزیشن باقی کمیٹیوں کے بائیکاٹ پر ہیں خصوصی کمیٹی سے اپوزیشن کی تجاویز بھی شامل کرلی جائینگی ۔ اراکین اسمبلی حسن بانو رخشانی ، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی ، ثمینہ خان ، ولیم جان برکت، سردار رضا محمد بڑیچ نے کہاکہ تعلیم فر د واحد کی محتاج نہیں ہے جو کام گزشتہ حکومت میں ہوا ہے وہ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہے ، پہلے مشیران بے اختیار ہوتے تھے لیکن ڈاکٹر مالک کی حکومت نے مشیروں کو وزیر کے برابر اختیار دیا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کے لئے کمیشن کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے گزشتہ دور میں تعلیم کے شعبے میں مخلوط حکومت نے گھوسٹ ملازمین تک کے خلاف کارروائی کی جس کی پہلے کوئی جرت نہیں کرتا تھا ۔ مخلوط حکومت نے تعلیم کے شعبے میں جتنا کا م کیا اتنا گزشتہ 25سالوں میں نہیں ہوا تھا ۔ جس پر اسپیکر نے قراردادکو متفقہ طورپر منظور کرنے کی رولنگ جاری کردی ۔جبکہ انہوں نے کہاکہ اراکین اسمبلی ایوان کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے الفاظ کے چنا و میں احتیاط کریں۔اجلاس کے دوران مشترکہ قرارداد نمبر 112پیش کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ یاسمین لہڑی نے کہاکہ تمام صوبوں میں ہیلتھ کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جبکہ بلوچستان میں طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال ہیلتھ کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے لہذا صوبے میں جلد ازجلد ہیلتھ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ قراردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے ارکان اسمبلی مجید خان اچکزئی ،سید لیاقت آغا،منظور کاکڑ،مولوی معاذ اللہ ،سردارعبدالرحمن کھیتران ،خالد لانگو،ڈاکٹر رقیہ ہاشمی ،ثمینہ خان نے کہا کہ بلوچستان میں ہیلتھ کمیشن کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے بی ایم سی میں پرائیویٹ میڈیکل سٹور کھول کر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس میں 20فیصد رعایت پر ادویات فراہم کی جارہی ہیں سندھ حکومت کی ڈونیشن میں ملنے والی ادویات بازار میں فروخت ہورہی ہیں جبکہ ہسپتال میں استعمال ہونے والی سرنجوں کی بھی جانچ پڑتال ٹھیک طرح سے نہیں کی جاتی سول ہسپتال میں پانچ وینٹی لیٹر ہیں جس میں سے ایک خراب ہے جبکہ تمام ڈاکٹر سول ہسپتال میں مریضوں کو دیکھنے کے بعد شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر آنے کا مشورہ دیتے ہیں کیا ہم ان سب چیزوں پر پردہ ڈال دیںیا پھر ایک آزاد کمیشن تشکیل دیکر ڈاکٹروں فارماسٹس کو پابند بنائیں ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں گائنی کی صورتحال بھی ابتر ہے ڈاکٹر اور ایل ایچ وی عملہ موجود نہیں ہے جس کے باعث صوبے کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو انتہائی مشکل کا سامنا رہتا ہے جبکہ ایک سائیکٹریسٹ دن میں 200مریض کیسے دیکھ سکتا ہے اور ایک نیوروسرجن دن میں 20آپریشن کیسے کرتا ہے ہمیں سمجھ نہیں آتا اس وقت ہمیں خیبر پختونخوا کے طرز کے کمیشن کی ضرورت ہے جس نے سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ کلینک کھولنے پر پابندی لگادی ہے ایم ایس ڈی نے گزشتہ دنوں میں اربوں روپے کے ٹھیکے کا اشتہار اخبار میں دیا ہے ہر ماہ اربوں روپے کی ادویات خریدی جاتی ہیں لیکن ایم ایس ڈی سے سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے اب بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن جس طرح پی ٹی سی حملے کے زخمیوں کو طبی امداد دی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جارہے ہیں ایوان نے قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ایوان میں آڈیٹر جنرل آف بلوچستان کی آڈٹ رپورٹ برائے حسابات حکومت بلوچستان برائے سال 2015-16بھی ایوان میں پیش کردی گئی۔ جس کے بعد اسمبلی کااجلاس 7نومبر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔