|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2016

کوئٹہ : صوبائی وزیر بلدیات سردار مصطفی خان ترین نے بیورو کریسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہم صوبے کے عوام کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں مگر اس کی راہ میں افسر شاہی رکاوٹ ہے صوبائی وزیر نے اپنی مبینہ بے اختیاری اور بیوروکریسی کے رویئے کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ بھی کیا تاہم بعد میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ انہیں منا کر واپس ایوان میں لے آئے۔ جمعے کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے وزیر بلدیات نے ایوان میں کھڑے ہو کر کہا کہ ہر وزیر یہ چاہتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کرے مگر میں اپنے محکمے میں بے اختیار ہوں ہمیں علم نہیں کہ بجٹ کہاں بنتا ہے اور ٹرانسفر کون کرتا ہے بلدیات کو اس وقت چیف سیکرٹری اور سیکرٹری چلارہے ہیں بلدیاتی نمائندے میرے پاس آکر شکایت کرتے ہیں مگر مجھے کسی بات کا علم نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ دو سال سے گریڈ انیس کا ایک افسرگریڈ17میں بیٹھا ہوا ہے ہم لکھ چکے ہیں مگر اسے نہیں ہٹایا جاتا ہم کام کرنا چاہتے ہیں مگر اس کی راہ میں افسر شاہی رکاوٹ ہے وہ یہ کہتے ہوئے ایوان سے چلے گئے کہ جب تک میرے تحفظات دور نہیں کئے جاتے اور اختیارات نہیں دیئے جاتے میں ایوان سے بائیکاٹ کروں گا سپیکر اور بعض دیگر اراکین نے انہیں بائیکاٹ نہ کرنے کا کہا تاہم وہ ایوان سے باہر چلے گئے جس کے بعد سپیکر کی ہدایت پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ڈاکٹر حامد اچکزئی نے جا کر انہیں منایا اور واپس ایوان میں لے آئے ان کے آنے پر ایوان میں ڈیسک بھی بجے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سردار مصطفی خان ترین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی اس یقین دہانی پر آئے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو ان کے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہماری حکومت نے سب سے پہلے لوکل باڈیز کے انتخابات کرائے مگر اب فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کے نمائندوں نے دفاتر کی تالہ بندی کی ہے اور اس کا سارا ملبہ حکومت پر گرتاہے انہو ں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے آنے پر انہیں وزیر بلدیات کے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔