|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2016

کوئٹہ : سانحہ کوئٹہ سے متعلق تشکیل دئیے گئے جوڈیشل کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سا نحہ سو ل ہسپتال سے متعلق پولیس کی تفتیش اورکارکردگی پر عدم اطمینا ن کر تے ہو ئے ریما رکس دئیے ہیں کہ بتا یا جا ئے کہ پولیس کیا کررہی ہے ،سانحہ کوئٹہ کی کیسی انکوائری ہوئی ہے ،پیر کو کمیشن کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی ،صوبائی سیکرٹری داخلہ ڈاکٹراکبرحریفال ،صوبائی سیکرٹری خزانہ اکبرحسین درانی ،اے اے جی شہک بلوچ ،آئی جی پولیس احسن محبوب ،صوبائی سیکرٹری داخلہ ڈاکٹراکبرحریفال ،صوبائی سیکرٹری خزانہ اکبرحسین درانی ،وکلاء ریاض احمد ایڈووکیٹ،ہادی شکیل احمد ایڈووکیٹ،محمدعامر رانا ایڈووکیٹ،عبدالغنی خلجی ایڈووکیٹ،منیر احمدکاکڑ ایڈووکیٹ،ساجد ترین ایڈووکیٹ،فوٹو گرافر وکیو یو جے کے جنرل سیکرٹری جمال ترہ کئی اور دیگر موجود تھے ۔سماعت کے دوران آئی جی پولیس احسن محبوب نے اپنا بیان کمیشن کے سامنے قلم بند کرایا انہوں نے کمیشن کو بتایاکہ مجھے بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کی اطلاع صبح گھر پر ملی اس کے 10منٹ بعد میں گھر سے آفس پہنچا تو وہاں مجھے سول ہسپتال میں دھماکے کی اطلاع ملی جس کے بعد ڈی آئی جی سے میرا رابطہ ہواتو ڈی آئی جی بتایا کہ وہ سول ہسپتال میں ہے اور ریسکیو وسیکورٹی کے انتظامات دیکھ رہے ہیں میں نے ڈی آئی جی اسپیشل برانچ کو فون کیا اور ہدا یت کی کہ وہ اپنے سیکورٹی معاملات کو دیکھ لیں جس پر کمیشن نے استفسار کیاکہ کیا انہیں اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ کو دھماکے کے بعد سیکورٹی معاملات کا خیال آیا جس پر آئی جی پولیس نے بتایاکہ انہوں نے سیکو رٹی کو مزید الرٹ کیا کمیشن نے آئی جی پولیس سے استفسار کیاکہ کیا یہ درست ہے کہ بلال انور کاسی کے ٹارگٹ کلنگ کی جائے وقوعہ کو صحیح طریقے سے محفوظ نہیں کیاگیا جس پر آئی جی نے کہاکہ ہاں یہ درست ہے کیونکہ وہاں گلی سے لوگ آجارہے تھے آئی جی پولیس نے کمیشن کی استفسار پر بتایاکہ وہ 10منٹ تک جائے وقوعہ پر موجود رہے اور وہاں سے تفصیلا ت حاصل کی واردات کے بعد ملزمان قریبی گلی سے کھیتوں کی طرف فرارہوئے تھے ،صدر پولیس کی موبائل وین ان کے پیچھے گئی تاہم ملزمان فرار ہوچکے تھے ،کمیشن نے ان سے پوچھا کہ پولیس والوں کو کوئی نشانات ملے انہوں نے بتایاکہ وہاں پکی سڑک تھی اور نشانات نہیں ملے ،کمیشن نے بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کے قتل کی ایف آئی آر کی اندراج میں غیر واضح تحریر پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ رپورٹ ایسی لکھی گئی ہے کہ اس میں بعد میں وقت کی تبدیلی کی جاسکے جس پر آئی جی نے بتایا کہ ایف آئی آر میں ساڑھے 9بجے کا وقت درج ہیں واقعہ کے سلسلے میں 2تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہے جو صدر اور سول لائن پولیس پر مشتمل ہیں ،اس کے علاوہ ایس پی انویسٹیگیشن کی سربراہی میں بھی 2تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی ہے بعد میں پولیس نے حکومت کو بھی جے آئی ٹی کی درخواست کی اور12اگست کو جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی ہے کمیشن نے ان سے استفسار کیا کہ کیا بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ اور سول ہسپتال کے دھماکے میں کوئی کنکشن ہے تو انہوں نے اثبا ت میں جواب دیتے ہوئے کہاکہ دونوں واقعات میں کنکشن ہے کمیشن نے ان سے پوچھا کہ بلال انور کاسی کی میت کس نے ہسپتال پہنچائی تو انہوں نے بتایاکہ ان کے بھائیوں نے ہسپتال پہنچائی ،کمیشن نے ان سے استفسار کیاکہ وکلاء کو اس واقعہ کی اطلاع کس نے دی اور کیا اس پر کوئی تفتیش ہوئی تو آئی جی پولیس نے بتایاکہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ وکلاء کو کس نے اطلاع دی اورنہ ہی اس پہلو پر تفتیش کی گئی ہے کمیشن نے ان سے پھر پوچھا کہ کیا یہ اہم پہلو نہیں ہے ؟ جس پر آئی جی پولیس نے کہاکہ یہ اہم پہلو ہے اس کو تفتیش میں شامل کرتے ہیں کہ وکلاء کو کس نے اس واقعہ کی اطلاع دی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی پولیس سے استفسار کیاکہ واقعہ کے سلسلے میں کسی حکومتی آفیسر نے ان کی معاونت کی تو انہوں نے کہاکہ وزیراعظم ،گورنر ،وزیراعلیٰ اورکمانڈرسدرن کمانڈنے انہیں بتایاکہ انکوائری کے سلسلے میں جو بھی مدد درکار ہو وہ اسے فرا ہم کر نے کو تیا ر ہیں ،کمیشن نے ان سے پھر استفسار کیاکہ پولیس نے کسی بھی صوبائی یا وفاقی ادارے کو کسی بھی پہلو پر ایسی مدد طلب کی جو پوری نہیں ہوئی ہو یا ان اداروں نے مہیا نہیں کی جس پر آئی جی پولیس نے کہاکہ ہم نے نادرا سے خودکش بمبار کی شناخت کے حوالے سے درخواست کی تھی اس حوالے سے میں رپورٹ کمیشن کو جمع کراچکا ہوں ،اس کے علاوہ تمام اداروں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا،آئی جی پولیس نے کمیشن کو بتایاکہ پنجاب اور خیبرپشتونخوا سے 2فرانزک ٹیمیں آئی تھی ان میں ایک پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی اور دوسرا خیبرپشتونخوا کا بم ڈسپوزل اسکواڈ یونٹ شامل تھی تاہم ان کی رپورٹس ابھی تک نہیں آئی کمیشن نے ان سے استفسار کیاکہ کیا یہ درست ہے کہ واقعہ سے قبل ہسپتال میں جو سیکورٹی تھی وہ ہٹا لی گئی تھی جس پر آئی جی نے کہاکہ ہاں یہ بات درست ہے کہ دو ماہ قبل پولیس گارڈز کو وہاں سے ہٹا کر دوسرے ڈسٹرب ایریا میں تعینات کیاگیا تھاکمیشن کے استفسار پر انہوں نے بتایاکہ بلال انور کاسی کے ٹارگٹ کلنگ کی جائے وقوعہ سے تفتیشی آفیسر نے گولیوں کے 8خالی خول قبضے میں لے لئے تھے ،کمیشن نے ان سے پھر استفسار کیاکہ کیا یہ درست ہے کہ ان خالی خولوں کو اس انداز سے اٹھایا گیاکہ بعد میں اس کے فنگر فرنٹ لئے جاسکے اورکیا ان خولوں کو فرانزک ایگزامینیشن کو بھجوائی گئی ؟تو انہوں نے کہاکہ ہاں ان خالی خولوں کو شائد صحیح انداز سے نہیں اٹھایاگیاہو تاہم ان خالی خولوں کو فرانزک رپورٹ کیلئے بھجوایاگیا کمیشن نے ان سے استفسار کیاکہ جو خالی خول پولیس کو وہاں سے ملے تھے وہ کسی اور واقعہ سے میچنگ کرتے ہیں یا نہیں تو انہوں نے بتایاکہ میں اس حوالے سے تحریری طور پر کمیشن کو جواب جمع کراچکاہوں ،کمیشن نے ان سے استفسار کیاکہ کیا بلوچستان میں کوئی فرانزک لیبارٹری ہے تو آئی جی پولیس نے بتایاکہ بلوچستان میں کوئی فرانزک لیبارٹری نہیں ہے ہم اس سلسلے میں باہر کی لیبارٹریوں سے مدد حاصل کرتے ہیں اس پر کمیشن نے کہاکہ 21ویں صدی میں ہم پہنچ چکے ہیں اور ابھی تک یہاں فرانزک لیبارٹری نہیں ہے کیا یہ کوئی مہنگاء سسٹم ہے جو خریدا نہیں جاسکتا کمیشن نے ان سے استفسار کیاکہ سول ہسپتال میں دھماکے کے بعد جو فائرنگ ہوئی کیا اس کی کوئی انکوائری ہوئی تو آئی جی پولیس نے بتایاکہ ہاں وہاں پر فائرنگ ہوئی تھی یہ فائرنگ ایک کانسٹیبل مجیب اللہ نے اپنی سرکاری ایس ایم جی سے کی اور 4فائر کئے کمیشن نے وکلاء کی جانب سے دئیے گئے سوال آئی جی پولیس سے پوچھے اور ان سے کہاکہ وکلاء کہہ رہے ہیں کہ وہاں دوطرفہ فائرنگ ہوئی جبکہ آپ کہتے ہیں کہ صرف 4فائر ہوئے آئی جی پولیس نے کہاکہ ہمارے پاس دوطرفہ فائرنگ کی کوئی رپورٹ نہیں ہے اس دوران ایک وکیل سمیع اللہ نے بتایاکہ وہ اس دھماکے میں زخمی ہوئے دھماکے کے وقت وہاں پر کافی فائرنگ ہوئی پہلے تین ،چار فائر ہوئے پھر دو برسٹ چلے ۔میرے پاس ان چار فائر کے علاوہ کوئی رپورٹس یا شواہد نہیں ہے اس پر کمیشن نے سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ آئی جی پولیس ہو بتائیں کہ اس میں کیا تفتیش ہوئی آپ لوگ آخر کیاکررہے ہو؟اس سلسلے میں کیا اور کیسی انکوائری ہوئی ہے ورنہء پھر میں لکھ دونگا کہ پولیس کچھ بھی نہیں کررہی ،میں آپ سے جو سوال پوچھ رہاہوں آپ ان سوالوں کے جواب نہیں دے رہے اس پر آئی جی نے کہاکہ میں تین دن میں تحریری جواب جمع کراؤں گا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ میرا یہاں ذاتی تجربہ ہے کہ پولیس کوئی کام نہیں کرتی صرف آفیسران کے آگے پیچھے ہوتی ہے حالانکہ پولیس کو چاہئے کہ وہ اپنا کام کریں ،کمیشن نے آئی جی پولیس سے استفسار کیاکہ کیا یہاں پر ہوائی فائرنگ کی اجازت ہے اور کیایہاں ہوائی فائرنگ ہوتی ہے اس پر آئی جی پولیس نے بتایاکہ ہوائی فائرنگ کی اجازت نہیں ہے کبھی کبھار ہوائی فائرنگ ہوتی ہے تو اس کا پولیس نوٹس لیتی ہے اس پر کمیشن نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپ کبھی کبھار کی بات کررہے ہو جب سے میں آیا ہوں یہاں ہر رات شہر میں فائرنگ ہوتی ہے میں خود گواہی دے سکتاہوں کہ یہاں پر ہوائی فائرنگ ہوتی ہے میں ریڈز ون میں رہتا ہوں روز فائرنگ کی آوازیں سنتاہوں رات کو بھی فائرنگ ہورہی تھی یہ ریڈزون کی صورتحال ہے انہوں نے آئی جی سے استفسار کیاکہ آپ کو پتہ ہے کہ ابھی دیوالی کے موقع پر کتنی فائرنگ ہوئی اس پر آئی جی نے کہاکہ انہیں نہیں پتہ تاہم شہر میں ہوائی فائرنگ کے حوالے سے کیسز درج ہوئے ہیں ،کمیشن کے استفسار پر انہوں نے بتایاکہ گزشتہ 30دنوں میں ہوائی فائرنگ کے 6کیسز درج ہوئے اس پر کمیشن کے جج نے کہاکہ آئی جی اگر اپنے دفتر سے باہر نکلے تو پتہ چلے گاکہ شہر میں کیا ہورہاہے آپ کو اس لئے پتہ نہیں کہ آپ کینٹ کے محفوظ علاقے میں ہے ،کمیشن نے آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ اس طرح جواب دے رہے ہیں کہ کوئی ناراض نہ ہو کمیشن نے ان سے استفسار کیاکہ کیا ایف سی کسی واقعہ میں ہوائی فائرنگ کرتی ہے تو آئی جی پولیس نے کورٹ میں موجود ایف سی کے کرنل سجاد سے بات کرنے کے بعد بتایاکہ اگر ایف سی کی گاڑی پر کو ئی بم دھماکہ یا فائرنگ ہوتی ہے تو اس پر ایف سی والے ہوائی فائرنگ کرتے ہیں اس دوران کمیشن نے کرنل سجاد سے استفسار کیاکہ آئی جی پولیس نے جو کچھ بتایاہے وہ درست ہے جس پر کرنل سجاد نے بتایاکہ ایف سی والے ہر واقعہ میں فائرنگ نہیں کرتے البتہ اگر ایف سی کی گاڑی پر کوئی دھماکہ یا پھر کوئی فائرنگ ہو تو اس دوران ایف سی والے ہوائی فائرنگ کرتے ہیں ،کمیشن نے وکلاء کی جانب سے آئی جی پولیس سے پوچھا کہ کیا واقعہ میں جاں بحق ہونیوالے افراد کی شناخت ہوگئی ہے تو آئی جی پولیس نے بتایاکہ سوائے خودکش بمبار کے تمام جاں بحق افراد کی شناخت ہوگئی ہیں ،ایک اور سوال پر آئی جی پولیس نے بتایاکہ شہر کے اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں ۔کمیشن کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی پولیس سے پوچھا کہ کیا بیرسٹر امان اللہ اچکزئی اور بلال انور کاسی کے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کوئی مماثلت ہے جس پر آئی جی پولیس نے بتایاکہ فی الحال ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی ہے انہوں نے بتایاکہ سول ہسپتال کا واقعہ 2013میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال (بی ایم سی )اور 2010میں سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونیوالے واقعات کی نوعیت ایک جیسی ہے انہوں نے بتایاکہ اس حوالے سے کچھ باتیں سیکریٹ ہیں جس پر کمیشن نے کہاکہ وہ تحریری طورپر جواب کمیشن کو جمع کرائیں سماعت کے دوران سول ہسپتال دھماکے کی کوریج کرنیوالے فوٹو گرافر وکوئٹہ یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری جمال ترہ کئی نے کمیشن کو اپنا بیان قلم بند کرایا جمال ترہ کئی نے کمیشن کو بتایاکہ انہیں بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کی اطلاع فون پر ملی جس پر وہ سول ہسپتال پہنچے ہسپتال میں کوریج میں مصروف تھا کہ دھماکہ ہوا میں نے اس دوران ویڈیو بنائی اور فوٹو کھینچے ،کمیشن کے استفسار پر انہوں نے بتایاکہ دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر ایک لیڈی ڈاکٹر اور 4پولیس اہلکار نظر آئے ایک پولیس ایس ایچ او بھی نظرآیا جو زخمی تھا لیڈی ڈاکٹر زخمیوں کو طبی امداد دے رہی تھی لیڈی ڈاکٹر کی نام کا مجھے اس وقت پتہ نہیں تھا بعد میں پتہ چلا کہ اس کانام ڈاکٹر شہلا کاکڑ ہے انہوں نے بتایاکہ سول ہسپتال دھماکے کے بعد انہیں کوئی ڈاکٹر نظر نہیں آیا زخمیوں اور جاں بحق افراد کے رشتہ داروں اور وکلاء نے زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا اس پر کمیشن نے کہاکہ ہمیں تو آج وہ ابتدائی شواہد ملے جو ابھی تک کسی انویسٹی گیشن میں نہیں ہے کمیشن نے استفسار کیاکہ کیا آپ سے کسی پولیس والے نے رابطہ کیاتو جمال ترہ کئی نے بتایاکہ ابھی تک کسی پولیس والے نے مجھ سے اس حوالے سے رابطہ نہیں کیااس پر کمیشن نے کہاکہ پولیس کی تفتیش کا یہ حال ہے اب تو تفتیش بھی ہمیں کرنی پڑے گی بعدازاں سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی ۔