|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2016

کوئٹہ : سانحہ سول ہسپتال سے متعلق تشکیل دیئے گئے جوڈیشل کمیشن کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سانحہ سول ہسپتال کو 3 ماہ کا عرصہ بیت چکا مگر اس کے باوجود بھی سول ہسپتال کی حالت زار پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی گئی ہے ، گزشتہ دنوں وہ ہسپتال گئے تو وہاں حالت کسی طور بھی حوصلہ افزاء نہ تھی ،ایمرجنسی میں اسٹریچرز تھے اور نہ ہی صفائی کی صورتحال بہتر تھی باہر سے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ہسپتال میں موجود تھی جس سے ثابت ہوا کہ وہاں وزٹنگ ہاورز کا کوئی رجحان ہی نہیں ، آفیسران ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں ایک سچ بات تک پہنچنے کے لئے پورا پورا دن لگ جاتا ہے ، بدنامی آفیسران کی نہیں بلکہ حکومت کی ہورہی ہے ،حلف اٹھانے کے بعد سچ نہ بولنا اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ ہم آخرت کو بھول چکے ہیں ۔ گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن کے سماعت کے موقع پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہک بلوچ ، سینئر وکلاء ہادی شکیل ایڈووکیٹ ، محمد عامر رانا ایڈووکیٹ ، منیر احمد کاکڑ ایڈووکیٹ ، ساجد ترین ایڈووکیٹ ، سید نذیر آغا ایڈووکیٹ ، اسد اچکزئی ایڈووکیٹ ، نادر چھلگری ایڈووکیٹ ، آصف ریکی ایڈووکیٹ ، جمیل احمد خان ایڈووکیٹ سمیت دیگر موجود تھے ۔ سماعت شروع ہوئی تو ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی ) آصف اکرام نے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان حلفی قلمبند کرایا ۔ انہوں نے بتایا کہ سول ہسپتال میں سی سی ٹی وی کیمرے 2014 میں لگائے گئے جن کی لاگت 11.559 ملین روپے تھی اس سلسلے میں ٹینڈر اخبارات میں مشتہر ہوا اور پھر علی ٹریڈرز نے کام لیا مگر جب علی ٹریڈرز کے مالک نے اپنے بیٹے کو وہاں ملازمین کے انگوٹھوں کے نشان لینے کے لئے بھیجا تو اسے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ کمیشن نے ان سے سوال کیا کہ کل کتنے کیمرے اور بائیومیٹرک مشین لگائے گئے تو ڈی جی آئی ٹی آصف اکرام بولے کہ 36 کیمرے اور 8 بائیو میٹرک سسٹم سمیت ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے ان پر کام اپریل 2014 میں مکمل ہوا لیکن بعد ازاں ڈیٹا انٹری کرنے والے ملازم پر تشدد کے بعد سسٹم غیر فعال رہا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں محکمہ آئی ٹی نے سیکرٹری صحت کو 15 ستمبر 2016 کو آگاہ کیا اور بتایا کہ ڈیٹا انٹری آپریٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیاہے اب کمیشن کے نوٹس میں لانے کے بعد سسٹم دوبارہ فعال کیا جاچکا ہے بلکہ نئے سرے سے تمام ملازمین کے انگوٹھوں کے نشان بھی دوبارہ لئے جارہے ہیں ۔ محکمہ آئی ٹی نے کمیشن کے سامنے سول ہسپتال حملے کی بھی فوٹیج پیش کی اس کے بعد سابق ایس ایچ او سول لائن اطہر رشید پیش ہوئے اور بتایا کہ انہیں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کا علم ہوا تو وہ 9 بج کر 10 منٹ پر ہسپتال پہنچے ۔ اس موقع پر میں نے 9 پولیس اہلکاروں کو بھی ہسپتال کے مختلف مقامات پر تعینات کیا ، موٹرسائیکلیں ہٹائی اور لوگوں کی تلاشی بھی لی اور وکلاء سے اپیل کی کہ وہ رش نہ بنائے لیکن انہوں نے میری درخواست کو نظر انداز کیا ۔ اس موقع پر کمیشن نے ان سے استفسار کیا کہ دھماکہ کس وقت ہوا تو وہ بولے کہ میں نے وقت نہیں دیکھا بلکہ اندازے سے بتا رہا ہوں کہ 9 بج کر 36 منٹ کا وقت تھا جس پر کمیشن کے جج نے کہاکہ آپ کے گواہی اور پہلے گواہی میں 8 منٹ کا فرق ہے ۔ سابق ایس ایچ او اطہر رشید بولے کہ میں دھماکے میں خود زخمی ہوگیا تھا میں نے موقع پر صرف ایک لیڈی ڈاکٹر کو دیکھا جو زخمیوں کو مدد کررہی تھیں ، میں نے موقع پر صرف 7 ایسے لوگ دیکھے جو لوگوں کی مدد کررہے تھے لیکن میں انہیں نہیں جانتا کہ وہ ڈاکٹرز تھے یا کوئی اور۔ انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد وہاں صرف 3ا سٹریچرز موجود تھے جبکہ تقریباً15 منٹ بعد میں نے پہلے ایمبولینس کو آتے دیکھا ، میں جب سی ایم ایچ پہنچا تو دیکھا کہ بہت سے وکلاء شہید ہوچکے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سول ہسپتال سانحہ کی تفتیش کا علم نہیں کیونکہ میں میڈیکل بنیاد پر چھٹی پر ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ میں سول ہسپتال 2 مرتبہ کیا گیا اور مطمئن تھا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر عمر بابر بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تو کمیشن نے ان سے استفسار کیا کہ جب سی سی ٹی وی کیمروں اور بائیو میٹرک سسٹم کو خراب کیا گیا اور ڈیٹا انٹری آپریٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے کیا کیا؟ تو وہ بولے کہ میں نے متعلقہ آفیسر کو ہدایت کی کہ وہ معاملے کو سلجھائے جس پر کمیشن کے قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا وہ پھونک مارتا اور معاملہ حل ہوتا جس پر ڈاکٹر عمر بابر بولے کہ ڈی جی ہیلتھ کی ذمہ داری تھی اس نے خط لکھ دیا تھا جس پر کمیشن نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے چیک کیا کہ اس نے خط کا جواب دیا تھا ، یہاں کوئی خود ذمہ داری نہیں لے رہا بلکہ دوسروں پر ذمہ داری ڈال رہا ہے ، چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک سب زبانی کام چلا رہے ہیں یہ ساری بدنامی آپ کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیئے اور کہا کہ بلوچستان حکومت کے آفیسران ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں ایک بات کی سچائی جاننے کے لئے پورا پورا دن لگ جاتا ہے ۔ اس موقع پر کمیشن نے سابق ڈی جی ہیلتھ خالد شیر دل کو بھی طلب کرنے کی ہدایت کی اور ریمارکس دیئے کہ ہم آخرت کو بھول چکے ہیں کیونکہ حلف اٹھانے کے بعد بھی سچ نہیں بولتے ۔ سرجیکل یونٹ ون کے ڈاکٹر اقبال جعفر نے اپنا بیان قلمبند کیا اور بتایا کہ دھماکے کے وقت وہ ہسپتال میں موجود تھے جب وہ او پی ڈی پہنچے تو انہوں نے دھماکہ سنا اور پھر جلدی سرجیکل یونٹ ون آئے جہاں 3 زخمی موجود تھے جسے انہوں نے طبی امداد دی اور پھر ایمرجنسی آپریشن تھیٹر گئے جہاں 6 زخمی موجود تھے جن میں سے 3 کی حالت انتہائی تشویشناک تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے بم دھماکے کی جگہ کسی ڈاکٹر اور نرس کو نہیں دیکھا تاہم پیرامیڈیکس اکبر اور امان اللہ وہاں موجود تھے ۔ میں نے ایم ایس کو جائے وقوعہ کی بجائے او ٹی میں دیکھا ۔ انہوں نے بتایا کہ 2014 میں ایک تنظیم کا کارکن ہاتھ پر گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا جسے ہسپتال لایا گیا تو ان کے پیچھے 8 سے 9 مسلح افراد آئے اور انہیں کہا کہ زخمی کو کچھ ہوا تو اس کی خیر نہیں تاہم آدھے گھنٹے بعد انہیں ایف سی اہلکاروں کی وہاں آنے کی خبر ملی تو وہ وہاں چلے گئے ان کا زخمی بچ گیا جس پر چیف جسٹس بولے کہ ہاں اسی لئے تو آپ زندہ ہے جبکہ ڈاکٹر اقبال جعفر نے کہاکہ مسلح افراد کے آمدورفت سے کوئی بھی ڈاکٹر تحفظ کا احسا س نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے کہاکہ ہسپتال میں آپریشن تھیٹرز میں آلات کی کمی ، ائیرفلو سسٹم کا بہتر نہ ہونا ، سیٹریلائزیشن سسٹم کا پرانا ہونا اور لیپروسکوپ کی عدم موجودگی سے انہیں علاج و معالجے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ8 اگست سے پہلے ہسپتال میں کوئی سیکورٹی نظام موجود نہیں تھا اور نہ ہی وزٹنگ ہاورز کا نظام ہے ۔اس موقع پر جمیل احمد خان ایڈووکیٹ کی جانب سے کمیشن کو دیا گیا سوال جب ڈاکٹر اقبال جعفر سے پوچھا گیا کہ وہ بتائیں کہ کیا سول ہسپتال کے ایمبولینسز میں تربیت یافتہ عملہ ہے ؟ تو وہ بولے کہ نہیں سول ہسپتال کے ایمبولینسز ڈرائیورز کو کسی قسم کی تربیت نہیں ۔ اس موقع پر لیڈی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نے پیش ہو کر بیان قلمبند کرایا اور بتایا کہ وہ 2013 سے سرجیکل یونٹ ون میں خدمات انجام دے رہی ہے وہ 9 بج کر 40 منٹ پر ہسپتال پہنچی تو دھماکہ ہوچکا تھا سرجیکل یونٹ ون میں تمام ڈاکٹرز موجود تھے انہوں نے خود بھی تو 2 زخمیوں کے میجر آپریشن کئے انہوں نے ڈاکٹر حنیف سمیت 2 ڈاکٹرز کو زخمیوں کو موقع پر طبی امداد دیتے ہوئے دیکھا تاہم انہوں نے ڈاکٹرز والے گاؤن نہیں پہنے تھے ۔ اس موقع پر جب ان سے پوچھا گیا کہ سرجیکل یونٹ ون میں کتنے ڈاکٹرز تعینات ہیں تو وہ بولیں کہ 9 ایف سی پی ایس ڈاکٹرز ، 9 پوسٹ گریجویٹس ، 8 ہاؤس آفیسرز تعینات ہیں دھماکے کے بعد 3 آپریشن تھیٹرز میں تین تین ڈاکٹرز زخمیوں کی مرہم پٹی کررہے تھے جبکہ زخمی ڈاکٹر درین گل کو بھی 2 ڈاکٹرز طبی امداد دے رہے تھے ۔11 بجے تک ہم نے زخمیوں کو طبی امداد دی اور پھر آپریشنز کا سلسلہ شروع کیا یہ تاثر درست نہیں کہ 45 منٹ تک کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا ۔ بعد ازاں میڈیکل سپرٹینڈنٹ سول ہسپتال ڈاکٹر فرید سمالانی پیش ہوئے اور بتایا کہ ان کا نام ڈاکٹر فرید ہے جبکہ سمالانی اس کے قوم کا نام ہے ان کی تعیناتی سابق ایم ایس کی معطلی کے بعد عمل میں لائی گئی ہے تاہم وہ بھی گریڈ 19 میں ہیں انہیں دسمبر 2015 میں گریڈ 19 میں ترقی ملی ، ان سے جب کمیشن نے استفسار کیا کہ انہوں نے میٹرک اور ایف ایس سی میں کتنے نمبرز لئے تو انہوں نے پہلے پہل بتایا کہ انہیں یاد نہیں مگر جب کمیشن کے جج نے کہا کہ میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر گواہی دوں گا اور سچ بولوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولوں گا اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ۔ آپ یہ حلف لے چکے ہیں تو ڈاکٹر فرید سمالانی بولے کہ وہ میٹرک میں تھرڈ ڈویژن لے چکے ہیں جبکہ ایف ایس سی میں بھی ان کا تھرڈ ڈویژن ہی تھا جبکہ ایم بی بی ایس انہوں نے سیکنڈ ڈویژن میں سپلی میں پاس کیا ۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر عبدالرحمن میاں خیل ان سے سینئر ہے ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ بتائیں کہ ان کے بطور ایم ایس آنے کے بعد ہسپتال کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تو وہ بولے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ بہتری آئی ہے یا نہیں تاہم ٹراما سینٹر کی فعالی ، پی ٹی سی کے بعد ایک سو 17 زخمیوں کو فوری طبی امداد دینے سمیت دیگر اقدامات کئے گئے ہیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ جب وہ 5 نومبر کو ہسپتال کے دورے پر آئے تو حالات کسی صورت بھی ٹھیک نہ تھے بلکہ اسے تو ایمرجنسی میں بھی سٹریچر اور عملے کی کمی نظر آئی ۔ ہسپتال کے تمام وارڈز اور دیگر شعبوں میں آؤٹ سائیڈرز بیٹھے اور آجارہے تھے ان پر کوئی نظر رکھنے والا نہیں تھا ۔اس موقع پر ڈاکٹر فرید نے کہاکہ ایمرجنسی کے سٹریچر لوگ مریضوں کو وارڈز تک منتقل کرنے کے لئے لے گئے تھے چونکہ اسٹریچرز رکھنے کے لئے جگہ نہیں اس لئے باہر پڑے اسٹریچرز کو مریض کے رشتہ انہیں وارڈز تک منتقل کرنے کے لئے لے جاتے ہیں جسے نہیں روکا جاسکتا ۔