|

وقتِ اشاعت :   November 12 – 2016

کوئٹہ : سانحہ سول اسپتال سے متعلق قائم تحقیقاتی کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا گیا کہ وزیر اعلی ٰنے عتراف کیا ہے کہ واقعہ کا ماسٹرمائنڈ پکڑاگیا ہے ، چیف سیکریٹری اور وزیر داخلہ کوکہیں اس بات کی وضاحت کریں۔ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے جواب دیا کہ واقعہ کا ماسٹر مائنڈ گرفتار نہیں ہوا۔میں نے اس خبر کی تردید کو نہیں دیکھا۔ کمیشن کی سماعت سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے کی۔سماعت کے دوران وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف احمد اوردیگر حکام کمیشن میں پیش ہوئے ، انکوائری جج نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کل شام ساڑھے سات بجے تک بیٹھے تھے، ہمیں کیوں نہیں بتایاگیاکہ وزیر اعلی نے اعتراف کیا کہ واقعہ کا ماسٹرمائنڈ پکڑاگیا، چیف سیکریٹری اور وزیر داخلہ کوکہیں اس بات کی وضاحت کریں، حکومت بلوچستان بالکل سنجیدہ نہیں ہے، ایڈووکیٹ جنرل دوسرے کاموں میں لگے ہیں صرف پریشان کرنے کے لیے آتے ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ان کیمرہ بریفنگ میں وزیر اعلی بلوچستان کے بیان سے متعلق بتانا چاہتا ہوں ، جج نے کہا کہ آپ کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی، اگر یہ جواب نہیں دے سکتے تو کیا وزیر اعلی کو بلائیں، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں جب آپ جواب نہیں دے سکتے تو وزیر اعلی کو بلائیں گے ، انکوائری جج نے کہا ڈی آئی جی پولیس کہاں ہے؟ انہیں جلد بلائیں، اگر ماسٹر مائنڈ گرفتار ہو گیا تو بہت خوشی ہوگی، اگر نہیں گرفتار ہوا تو پوچھنے کی بات ہیں، ڈی آئی جی کوئٹہ نے بیان دیا کہ ایس ایس پی اعتزاز گورایا سانحہ 8اگست کی تفتیش کر رہے ہیں، سول ہسپتال واقع کا ماسٹر گرفتار نہیں ہوا ہے ،وہ مجھے رپورٹ کرتے ہیں، میں نے اس خبر کی تردید کو نہیں دیکھا, سماعت کے دوران وفاقی سیکریٹری داخلہ نے اپنا بیان قلمبند کروایا۔ انکوائری جج نے سیکریٹری داخلہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ نہیں آئے،وقت مانگ رہے تھے، اب تیاری نہیں ہے، آپ عوام کے ملازم ہیں، یہ کوئی چائے پارٹی نہیں ،آپ کا برتاؤ اچھا نہیں ہے، وفاقی حکومت تحریری طور پر جواب دے،وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بیان دیا کہ نیکٹانیشنل کاؤنٹر ٹیرریزم اتھارٹی کے زیر انتظام کام کرتا ہے، انکوائری جج نے عارف احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیران کن بات ہے کہ حکومت پاکستان کسی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے لیے تین ماہ سے انتظار کر رہی ہے ، جس پر وفاقی سیکریٹری نے جواب دیا کہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے، جج نے پوچھا کہ خود کش حملہ آور افغانستان سے آیا،؟ کیا افغان حکومت کے ساتھ معاملہ اٹھایا؟ سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ یہ معاملہ ہم نے فارن منسٹری کیساتھ نہیں اٹھایا لیکن یہ بھی نہیں کہ سکتے انھوں نے افغان حکومت سے بات کی ہے کہ نہیں، یہ فارن منسٹری ازخود کام کرتی ہے، مرکزی سطح پر ڈیٹا بینک تیار کرتے ہیں نیشنل پولیس بیورو ہیں لیکن وہ کافی نہیں ہے، جج نے ریمارکس دیئے کہ اگر وفاقی حکومت کا ہر شخص علیحدہ علیحدہ جواب دے تو پھر کام نہیں چلے گا، آپکے جواب ایسے ہیں کہ ہر ایک کو خوش کر رہے ہیں، چیف سیکرٹری بلوچستان نے یہاں اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہے، بیورو کریٹ کا کام منسٹر، آئی ایس آئی، وزیر اور سب کو خوش کرنا نہیں ہے، میں کیسے تجاویز دے سکتا ہوں میں لکھ دونگا جو میں نہیں چاہتا، ہم نیکٹا، سیکرٹری داخلہ سپیشل سیکرٹری سمیت سب کو دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی مطمئن نہیں کر رہا، وفاقی حکومت سمیت سب کو انکی زمہ داریاں یاد کرانا پڑ رہی ہے، ایک سوال کے جواب میں وفاقی سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سول ہسپتال واقع کے بعد کوئٹہ نہیں آئے، ان کے کوئٹہ آنے سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔